معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
انتخابات کی تیاری
قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے‘ اگست2018ء میں اس کے اراکین نے حلف اٹھایا تھا۔ تین ماہ بعد اسے تحلیل ہو جانا ہے‘ اس کے بعد60روز کے اندر انتخابات کا انعقاد ہو گا۔سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں بھی اس کے ساتھ ہی اپنے پانچ سال مکمل کر لیں گی۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو جناب عمران خان کی نذر لگ گئی اور انہیں وقت سے پہلے تحلیل کر دیا گیا۔اُنہیں توقع تھی کہ وہ اپنے حریفوں کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بھی اپنی اپنی اسمبلیاں تحلیل کر ڈالیں اور یوں قبل ازوقت انتخابات کا حصول ممکن ہو جائے گا ‘لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی اپنی جگہ موجود رہیں‘کسی کے بھی قائد نے عمران خان کی ایک نہیں سنی۔یہاں تک کہ وہ اپنی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات بھی حاصل نہیں کر پائے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتیں قائم کر دی گئیں جو ابھی تک اپنا سکہّ چلا رہی ہیں اور جب تک انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا وہ اپنی اپنی جگہ موجود رہیں گی۔گویا عمران خان صاحب کی ساری اُٹھک بیٹھک کا نتیجہ یہ نکلا کہ برادرم محسن نقوی اور بزرگوارم اعظم خان کا اقتدار طویل ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی خواہش کے باوجود پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔وزارتِ خزانہ نے وسائل فراہم کیے‘ نہ سکیورٹی اداروں نے حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری اٹھائی‘ سو14مئی آیا اور گزر گیا‘ سپریم کورٹ کو ٹھنڈا پانی پینا پڑ گیا۔الیکشن کمیشن پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کرانے کے لیے اکتوبر کی تاریخ دے چکا تھا‘ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ انتخابات اُسی روز ہوں گے۔اگرچہ وسوسوں اور خدشوں کا اظہار بھی ہو رہا ہے‘عمران خان اور اُن کے مخالفوں کے درمیان جو گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے‘اُس کی وجہ سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخاب اکتوبر میں بھی منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ پہلے ماحول سازگار بنایا جائے گا اور اس میں ہفتوں نہیں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو پھر کیا ہو گا اور نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا‘ یہ سرگوشیاں جاری ہیں۔
9مئی کو جو کچھ ہو چکا‘اُس نے ہماری سیاست کے چہرے پر ایسے داغ لگائے ہیں کہ جنہیں دھونے کے لیے برسوں درکار ہوں گے۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے منہ زوروں نے دفاعی تنصیبات تک کو نشانہ بنا ڈالا لیکن سانحے سے بڑھ کرسانحہ یہ ہوا کہ خان کی طرف سے اُس کی فوری اور موثر مذمت نہیں کی گئی۔کئی روز تک بات کو اگرچہ ‘ مگرچہ اور چونکہ‘ چنانچہ میں اُلجھایا جاتا رہا‘جب ردِعمل حد سے بڑھ گیا تو پھر اس کی براہِ راست مذمت کی گئی لیکن جو نقصان ہونا تھا‘ وہ ہو چکا تھا۔تحریک انصاف کے اندر کھلبلی مچی ہوئی ہے‘اُس کے کئی رہنما اسے چھوڑ گئے ہیں‘کئی9مئی کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘یہاں تک کہ حملہ آوروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی بھی قابل ِ قبول ٹھہر رہی ہے۔
عمران خان کے حریف اُن کے خلاف شدید کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔اُس کے ہزاروں متعلقین جیلوں میں ہیں اور مقدمات قائم کرنے کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔نیب بھی حرکت میں ہے‘ عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں‘ اُن پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔اُن پر سیاست کے دروازے بند کرنے کی سعی ہو رہی ہے۔
عمران خان کے ساتھ کیا ہو گا اور وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کیا کریں گے‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا لیکن جن کی نظر تاریخ اور سیاست پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جمہوری ممالک میں عوام کی طاقت ہی فیصلہ کن ہوتی ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا چاہیے‘ قانون شکنی کا ارتکاب کرنے والوں سے قانون ضرور نبٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حامد کے کیے کی سزا محمود کو اور محمود کے کیے کی سزا حامد کو دے دی جائے۔عمران خان سے جو بھی اختلاف کیا جائے‘ اُن کے کئی فیصلوں پر جو بھی تنقید کی جائے‘اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور اپنا وسیع حلقہ ٔ اثر رکھتی ہے۔ اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق عوام کے پاس ہے اور انہی کے پاس رہنا چاہیے۔ پاکستانی ریاست اس وقت متعدد مسائل میں اُلجھی ہوئی ہے‘معیشت کا حال دِگرگوں ہے‘بے یقینی کے سائے گہرے ہو رہے ہیں‘لوگ منقسم ہیں‘اہل ِ سیاست اور اہل ِ دانش کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح معاملات کو سنبھال سکتے ہیں‘ جو دودھ گر چکا ہے‘ اُسے تو دوبارہ برتن میں نہیں ڈالا جا سکتا لیکن جو برتن میں موجود ہے اُسے تو گرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔پاکستانی سیاست میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہو اور طاقتور جس جس طرح بھی کھلواڑ کرتے رہے ہوں‘ ووٹ کی طاقت کا بہرحال انکار نہیں کیا جا سکا۔اس بات پر اتفاقِ رائے رہا ہے کہ ووٹ ہی کی طاقت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ہوں‘ یا جنرل ضیاء الحق یا پرویزمشرف ‘ ان سب نے ووٹ ہی کی چھتری میں پناہ لینے کی کوشش کی‘ پاکستان ووٹ ہی کے ذریعے وجود میں آیا اور ووٹ ہی کے ذریعے اسے مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ووٹ سے انکار کی بھاری قیمت ماضی میں بھی چکانا پڑی اور مستقبل میں بھی چکانا پڑ سکتی ہے۔عمران خان کے حامی ہوں یا مخالف سب کو یہ بات پلے سے باندھ لینا ہو گی کہ بیلٹ باکس ہی کے ذریعے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکتے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی خواہش کو زیر کر سکتے ہیں۔ اُلجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کا طریقہ یہی ہے کہ انتخابات کی تیاری شروع کر دی جائے۔اُن کے انتظامات کے حوالے سے بات چیت کا آغاز ہو۔ قانون شکن عناصر سے قانون نبٹتا رہے‘مقدمات اور الزامات کو عدالتوں پر چھوڑ دیا جائے‘اس حوالے سے کسی رو رعایت کی ضرورت ہے‘ نہ کسی کو ” این آر او‘‘ دینے کی‘ جس نے جو کیا ہے وہ بھرے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا‘ قانون کی نظر میں سب برابر ہونے چاہئیں۔ دفاعی تنصیبات پر حملے کرنے والے اور جھوٹ کا طوفان اٹھانے والے بہرطور کیفر کردار کو پہنچنے چاہئیں۔لاقانونیت جمہوریت کی ضد ہے۔ قانون شکن جمہوری لبادہ اوڑھ نہیں سکتے لیکن اُن سے نبٹنا انتظامیہ سے زیادہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔قانون شکن کوئی بھی ہو اُس کے کیے کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جا سکتی۔ پوری قوم کے حقوق غصب نہیں کیے جا سکتے۔انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ سب مل کر اپنی توجہ اس طرف مرکوز کر دیں کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔عوام کی اکثریت جس کے ساتھ ہو‘اُس کے سر پر تاج رکھ دیا جائے‘پانچ سال ہی کی تو بات ہے۔آج وہ کل ہماری باری ہے۔ اگر یہ بنیادی نکتہ اوجھل ہو جائے گا تو پھر بہت کچھ اوجھل ہوتا چلا جائے گا‘ پانچ سال تو پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔