عالمی معاہدوں میں ممنوع قرار مہلک ہتھیاروں کی بھرمار

21 ویں صدی میں حساس اور اسلحہ جدید ہتھیاروں کے استعمال سے جنگ کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اپ ٹو ڈیٹ گنز سے لیکر پیچیدہ ڈرونز تک جنگ میں استعمال ہونے لگے ہیں۔

حکومتوں کے پاس تباہی کے جو آلات ہیں ان میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے۔سنگل جدید ایٹمی ہتھیار پانچ لاکھ انسانوں کو موت کی نیند سلا سکتا ہے، یہ بات CEO WORLD MAGAZINE میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں کہی گئی ہے۔

آرٹیکل کے مطابق مہلک ترین ہتھیار ماڈرن وار فیئر کا حصہ بن رہے ہیں۔ تباہی کے یہ طاقتور ہتھیار نہ صرف تباہی و بربادی لائے ہیں بلکہ دور حاضر میں جنگوں کی نوعیت کو بدل رہے ہیں۔

میگزین نے 1964ء کی دستاویزات کو ہتھیاروں کے مہلک پن کے تاریخی عنوان سے شائع کیا ہے جس میں تاریخ کے مختلف ادوار میں ہتھیاروں کے مہلک پن کو اجاگر کیا ہے۔

1900ء میں جنگی ساز و سامان کو جدید سے جدید بنایا جائے کا مقابلہ جاری ہے۔ جدید جنگی ٹیکنالوجی اور ملٹری سرگر میوں سے تباہ کاریاں مرکوز کر دی گئی ہیں۔ یہ امر ناگزیر ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے تو بعض ہتھیار قانونی حدود و قیود سے باہر ہیں۔ یہ عالمی کنونشنز کی مقرر کردہ حدود کو خاطر میں نہیں لاتے۔

آرٹیکل کے مطابق ایسے جدید اسلحے بنا لئے گئے ہیں جو عالمی جنگی معاہدوں کی صریحاً خلاف ورزی ہیں اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں جس میں ان ہتھیاروں کو قانونی قرار دیا جا سکے تاہم یہ بات واضح ہو گئی ہے اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ ممنوعہ ہتھیار دنیا بھر میں ملٹری اسلحہ خانوں میں پائے جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں جنگی ساز و سامان کے ذخائر میں ممنوعہ ہتھیار بکثرت موجود ہیں جن میں انتہائی مہلک چھوٹے ہتھیار بھی شامل ہیں جو پورے کے پورے شہروں کو تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں۔