پی ٹی آئی کے پاس اپنی بحالی کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں

9؍ مئی کے واقعات اور حالات کے بعد سے پی ٹی آئی کے پاس اپنی بحالی کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں۔ پارٹی کو پتہ ہی نہیں کہ کیا کرنا چاہئے اور صرف انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

پارٹی کے ایسے رہنما، جنہوں نے اب تک پارٹی کو خیرباد نہیں کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روپوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مائنس عمران خان کا مطلب مائنس پی ٹی آئی ہوگا۔

زُوم پر ہونے والے ایسے ہی ’’قابل بھروسہ‘‘ رہنماؤں کے اجلاس میں عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ وہ مائنس ون جیسے کسی بھی فارمولا کے آگے نہ جھکیں۔

اجلاس میں شریک پی ٹی آئی کے ایک ذریعے نے بتایا کہ نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی زوُم پر ہونے والے اس اجلاس کے شرکاء میں شامل نہیں تھے۔

جب اس ذریعے سے پوچھا گیا کہ اجلاس سے قریشی غائب کیوں تھے تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اجلاس میں صرف نظریاتی رہنماؤں نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران متفقہ طور پر عمران خان سے کہہ دیا گیا کہ ’’بھلے ہی پوری پارٹی کو مائنس کر دیا جائے لیکن ہم مائنس عمران خان قبول نہیں کریں گے۔‘‘

شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی مائنس عمران خان فارمولا کو نہیں مانیں گے اور اگر یہ لوگ مائنس عمران خان کرنا چاہتے ہیں تو پوری پارٹی کو مائنس کر دیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے اور پی ٹی آئی کے سوا ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ انہوں نے اوور سیز پاکستانیز کے اُن پر اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

اوورسیز پاکستانیز پی ڈی ایم رہنماؤں اور ان کی حکومت پر کبھی بھروسہ نہیں کریں گے۔

پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے ساتھ اب تک کھڑے رہنے والے رہنماؤں کی تعریف کی اور پارٹی رہنماؤں سے کہا کہ اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی ان کے ساتھ ہیں اور چٹان کی طرح کھڑی ہیں۔

تاہم، پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے ساتھ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے کہ وہ موجودہ بحران سے نکل سکے اور صرف انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔

سڑکوں پر دھرنوں اور لانگ مارچ کے دلدادہ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین کو بھی احساس ہے کہ 9؍ مئی کے واقعات کی وجہ سے پارٹی کو زبردست دھچکا لگا ہے اور اب ان کے پاس اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کا شاید ہی کوئی موقع باقی رہ گیا ہے۔

درجنوں رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں، کئی جیلوں میں ہیں جبکہ کئی روپوش ہیں۔ صورتحال واضح نہیں کہ یہ لوگ کب تک روپوش رہیں گے۔ تاہم، گرفتار ہو کر پریس کانفرنسز کے ذریعے پی ٹی آئی اور عمران خان سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں روپوشی کو ہی بہتر آپشن قرار دیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے اندر ایک اور طلب جاگ رہی ہے کہ پارٹی کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے؛ یہی بات ہفتہ کو عمران خان نے یوٹیوب پر اپنے خطاب کے دوران بھی کہی لیکن پارٹی رہنماؤں کو ایسا کوئی موقع نظر نہیں آ رہا۔

پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے نئے آرمی چیف کے تقرر کے بعد سے ختم ہو چکے ہیں۔

9؍ مئی سے قبل پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین نے منقطع ہو چکے رابطے بحال کرنے کی کئی کوششیں کیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

9؍ مئی کے بعد صورتحال پی ٹی آئی کیلئے بدترین ہو گئی اور اس کی وجہ فوجی تنصیبات، عماراتوں اور علامات پر حملے تھے۔

ہفتے کو عمران خان نے کہا کہ وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس کا اظہار کیا کہ متعدد کوششوں کے باوجود دوسری سمت سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔

دلچسپ بات ہے کہ عمران خان جو ایک طرف بے صبری کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ 9؍ مئی کے واقعات میں جنرل عاصم منیر کو ہدف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔