تحریک انصاف کی قیادت کو توقع ہے کہ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کے جانے کے بعد پارٹی کیلئے حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے کہا کہ 9 مئی کے بعد سے شروع ہونے والی مشکلات 9 اگست کے بعد کم ہونا شروع ہوجائیں گی۔
9 اگست کو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ پس منظر کی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے حالات میں بہتری کی ان کی امیدیں صرف جائزوں پر مبنی ہیں اور یہ لوگ کوئی ٹھوس وجوہات بیان نہیں کر رہے۔ کسی طرف سے کوئی یقین دہانی بھی نہیں کرائی گئی۔
پارٹی ترجمان رؤف حسن نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ کوئی قیاس آرائی نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پی ٹی آئی اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی چاہے حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایک سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے تحریک انصاف کی جدوجہد آئین اور قانون کے دائرے میں رہے گی۔ گزشتہ 15؍ ماہ کے دوران جس انداز سے پارٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا؛ اس بات کی یاد دہانی کراتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ صورتحال چاہے جیسی بھی ہو، ہو ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما سمجھتے ہیں کہ ان کے موجودہ مسائل کا تعلق کسی اور وجہ سے زیادہ 9؍ مئی کے واقعات سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی پی ڈی ایم حکومت کے جانے سے انہیں مثبت تبدیلی کی توقع ہے۔
جب ان رہنماؤں سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی نے پارٹی معاملات طے کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوبارہ کوئی رابطہ قائم کیا ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔
اس نمائندے نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے جو کچھ پتہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ پارٹی اور اس کے چیئرمین 9 مئی کی سنگینی اور خاص طور پر دفاعی افواج پر اس کے اثرات کو نہیں دیکھتے۔ تحریک انصاف اسے بھول جانا چاہتی ہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بھی یہی توقع رکھتی ہے۔
جب انہیں بتایا گیا کہ ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے اور 9 مئی کے بعد شاید اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان سے بات کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، تو ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مقبول ترین جماعت ہونے کی حیثیت سے تحریک انصاف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ملک کے نوجوان عمران خان کی پیروی کرتے ہیں، ملک انہیں مایوس کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑنے والوں کی طرح پارٹی کے بہت سے رہنما یہ مانتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی شروع کر کے غلطی کی تھی۔ لیکن ان رہنماؤں کا اصرار ہے کہ عمران خان کو ان لوگوں میں سے کچھ نے گمراہ کیا جو پہلے ان کے ارد گرد موجود تھے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لوگ اب عمران خان کے گرد موجود نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب انہیں بہتر مشورہ مل رہا ہے۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ بہتر مشورے کے باوجود انہوں نے 9 مئی کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ فوجی قیادت پر تنقید جاری رکھی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی تصفیہ ہو جائے تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کون اس بات کی ضمانت دے گا کہ عمران خان وہ سب نہیں کریں گے جو انہوں نے گزشتہ 15 ماہ سے جاری رکھا ہے تو پی ٹی آئی کے ذرائع نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔
لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بحالی کی خواہش ہے لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات کیوں کرے گی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے بعد عمران خان پر بھروسہ کیوں کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کی مقبولیت کے بارے میں تو بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ 9 مئی نے پاک فوج کی ساکھ کو کس قدر نقصان پہنچایا۔