پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
سوالات تو پیدا ہوں گے
یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ آئین پاکستان کی رُو سے تنازعات طے کرنے کا آخری اور حتمی ادارہ ہے۔اسے افراد کے درمیان‘ ریاست اور افراد کے درمیان‘ صوبوں کے درمیان‘ صوبوں اور مرکز کے درمیان اور مختلف اداروں کے درمیان کوئی بھی تنازع کھڑا ہونے کی صورت میں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔فیصلہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند‘کوئی اس سے اتفاق کرے یا اختلاف‘اسے تسلیم کرے یا نہ کرے‘اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔اسی کی بدولت ریاست اپنا استحکام برقرار رکھ سکتی ہے اور برقرار رکھتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے جن فیصلوں پر آج شدید تنقید ہوتی ہے‘(ان کا ارتکاب کرنے والے ججوں کو بھی نشانۂ ملامت بنایا جاتا ہے) ان کی تعداد کم نہیں ہے۔گورنر جنرل غلام محمد نے جب مجلس ِ دستور ساز کو تحلیل کیا اور اُس وقت کی اعلیٰ ترین عدالت نے (جو فیڈرل کورٹ کہلاتی تھی) اس پر مہر ِتصدیق ثبت کی‘ تو یہ گویا ”فردِ واحد‘‘ کی بے لگامی کا آغاز تھا۔ فردِ واحد قوم کی اجتماعی دانش کے مقابلے میں بھاری ٹھہرا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کا کوئی اختیار گورنر جنرل کے پاس نہیں تھا‘ نہ ہو سکتا تھا کہ وہ خود کابینہ کی تخلیق تھا‘ کابینہ کی سفارش پر تاجِ برطانیہ نے اس کا تقرر کیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی دستور بنا چکی تھی‘ اس کی پہلی خواندگی بھی مکمل ہو چکی تھی‘لیکن اس ”جرم‘‘ کی پاداش میں کہ سات سال گزرنے کے باوجود دستور نہیں بنایا جا سکا ‘دستوریہ کی تحلیل کا اعلان کر دیا گیا۔ اس فیصلے کو بِلاچون و چرا تسلیم کر لیا گیا۔اس کے بعد نئی دستور ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیا‘ اور گاڑی پھر پٹڑی پر چڑھ گئی۔نئی اسمبلی نے 1956ء میں پاکستان کا پہلا دستور منظور کر لیا‘جو اسی سال23 مارچ کو نافذ بھی کر دیا گیا۔ اگر 1958ء کا مارشل لا نافذ نہ ہوتا تو پاکستان کو ان سیاسی اور آئینی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو بالآخر اُس کی تقسیم پر منتج ہوئے۔
1958ء کے فوجی انقلاب کی عدالتی توثیق ہو یا‘1977ء کے مارشل لا کی یا 1999ء کے فوجی شب خون کی‘یہ سب کچھ آج سخت تنقید کی زد میں ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان فیصلوں نے اجتماعی زندگی کا بھرم برقرار رکھا‘اور پاکستان ایک ریاست کے طور پر قائم و دائم رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف قتل کے الزام میں مقدمہ چلا کر انہیں انتہائی سزا سنائی گئی‘ تو اس پر بھی عملدرآمد ہوا۔ اس فیصلے کی اس لیے کتابِ قانون میں کوئی پذیرائی نہیں ہوئی کہ معاون مجرم (Abetter) کو پھانسی کی سزا نہیں دی جاتی‘ اس کا مستحق وہی قرار پاتا ہے‘ جس کے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہوں‘لیکن جب یہ فیصلہ صادر ہوا‘ تو اس سے اتفاق نہ کرنے والے بھی خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کا پھندا چومنا پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ناپسندیدہ قرار پانے والے فیصلے جب سنائے گئے تھے‘تو ان میں سے کئی کی حمایت میں پُرجوش آوازیں اُٹھی تھیں‘ان کی داد دی گئی تھی‘اور فیصلہ سنانے والوں کے حق میں نعرے بھی لگائے گئے تھے۔گورنر جنرل غلام محمد کے حق میں کیے جانے والے فیصلے ہی کو لے لیجیے‘ جب اسے سنایا گیا تو اہل ِ سیاست کی اچھی خاصی تعداد نے اس کا خیر مقدم کیا تھا‘ مشرقی بنگال کے رہنمائوںحسین شہید سہروردی اور مولوی فضل الحق نے اس پر تالیاں بجائی تھیں۔ مسلم لیگ صوبائی اسمبلی کے انتخابات بری طرح ہار چکی تھی‘اس کے مقابلے میں حسین شہید سہروردی‘مولوی فضل الحق‘ اور مولانا بھاشانی کے قائم کردہ متحدہ محاذ نے بھاری اکثریت حاصل کر لی تھی‘ ان رہنمائوں کا موقف تھا کہ مجلس دستور ساز اپنی نمائندہ حیثیت کھو بیٹھی ہے‘اس لیے اس کے انتخابات دوبارہ کرائے جائیں۔اس کے مقابل مؤقف یہ تھا کہ یہ مجلس جب تک اپنا کام مکمل نہیں کر لیتی‘ اسے تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔اس مجلس ِ دستور ساز کو 1946ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی اسمبلیوں نے منتخب کیا تھا‘سو مشرقی بنگال کی صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہونے والوں کامطالبہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کی شکست کے بعد صوبائی اسمبلی کو اپنے نئے نمائندے چننے کا اختیار دیا جائے۔ جوں جوں وقت گزرا گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کے منفی اثرات واضح ہوئے‘ عدالت کا فیصلہ مسترد ہوتا چلا گیا۔ آج پاکستان کے آئینی‘ قانونی اور سیاسی حلقوں کا اجماع ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام غلط تھا‘ اور فیڈرل کورٹ نے اس کی توثیق کر کے آئینی مسائل کو سلجھانے کے بجائے الجھانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔اس تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ غلط ہو سکتا ہے‘اسے آنے والے وقت میں ناگوار الفاظ میں یاد کیا جا سکتا ہے‘ لیکن جب یہ فیصلہ سرزد ہوتا ہے تو اس وقت اجتماعی نظم کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے اگر نافذ نہ ہو پائیں تو پھر ریاست استحکام سے محروم ہو سکتی ہے‘اور اس کا شیرازہ منتشر کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے دل میں لڈو پھوٹ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی اس حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے‘ یہ عرض کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ محض آئینی اور تکنیکی نکتوں پر اکتفا کرنے سے کسی بھی ادارے کی اخلاقی ساکھ میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔وہ جو کہتے ہیں کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے‘ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے‘اسی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معاملات کی طرف متوجہ ہونا ہو گا۔عدالتی اصلاحات کا جو بل پارلیمنٹ نے منظور کر کے صدرِ پاکستان کو بھجوایا تھا‘ انہوں نے اس پر دستخط کرنے کے بجائے اعتراضات لگا کر واپس ارسال کر دیا۔ اس کے بعد اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے منظور کر کے دوبارہ ان کی خدمت میں بھیجا‘انہوں نے ابھی اس پر دستخط ہی نہیں کئے تھے کہ اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا۔ہائی کورٹ میں تو سماعت نہیں ہو پائی‘لیکن سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے آٹھ رکنی بینچ بنا کر اسے سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔بینچ میں عدالت کے سینئر ترین جج شامل نہیں تھے‘ فاضل چیف جسٹس نے اپنی صوابدید کے مطابق ارکان چنے اور انہوں نے فوری طور پر سماعت کرتے ہوئے حکم امتناعی جاری کر دیا۔ کہا گیا کہ اس سے عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگ سکتی ہے‘ اس لیے صدرِ مملکت اس پر دستخط کریں یا نہ کریں‘یہ نافذ العمل نہیں ہو گا۔ملک بھر کے بہت سے سینئر قانون دان سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ ایک بل جو ابھی قانون نہیں بنا تھا‘ جلد بازی میں اس کا گلا کیوں دبا دیا گیا؟ یہ بل سووموٹو نوٹس لینے اور بینچ تشکیل کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ارکان یعنی چیف جسٹس اور ان کے دو رفقا کو منتقل کرتا ہے‘اس لیے چیف جسٹس بذاتِ خود اس میں فریق تھے‘ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس بینچ کی سربراہی نہیں کریں گے‘لیکن انہوں نے اس پر بھی توجہ نہیں دی‘ اور جو مناسب سمجھتے تھے کر گزرے۔
آٹھ رکنی بینچ کا فیصلہ آئینی اور قانونی جواز جو بھی رکھے‘ جب اس کا جائزہ لیا جائے گا‘ تو سوالات پیدا ہوں گے۔سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت جس طرح آمنے سامنے ہیں‘اسے دیکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت بہت زیادہ تھی‘اور ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ پر وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان اختلاف کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔فاضل چیف جسٹس سے اب بھی یہ گزارش کی جا سکتی ہے‘اور کی جانی چاہیے کہ معاملات کو تکنیکی طور پر دیکھنے کے بجائے وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا جائے تو فل کورٹ سے رجوع کرنے کی اہمیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ادارے سیاسی ہوں یا غیر سیاسی جسد ِ قومی کا حصہ ہیں‘ایک دوسرے کو زیر کرنے کی خواہش پال کر یا ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر کسی کا بھی سر اونچا نہیں رہ سکتا۔