اسرائیل سے تعلقات عرب ممالک مخمصے کا شکار

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے حالیہ برسوں میں اسرائیل کیساتھ تعلقات معمول پر لانیوالے عرب ممالک فلسطین کی شدت سے حامی عرب رائے عامہ کے ساتھ سفارت کاری میں توازن پیدا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

لیکن جیسا کہ تجزیہ کاروں نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے طویل اور پرتشدد ردعمل کی پیش گوئی کی ہے.

توقع کی جاتی ہے کہ ان قوموں کو درپیش صورتحال تیزی سے پریشان کن ہوتی جارہی ہے۔

جنوبی اسرائیل میں فلسطینی مجاہدین کے حملے کے تناظر میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی یرغمالیوں کے اغوا کی مذمت کی ہے۔

دبئی میں اسرائیل کے قونصل جنرل لیرون زسلانسکی نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کے موقف پر شکریہ ادا کیا۔

منگل کو جب اسرائیل نے محصور غزہ کی پٹی پر بمباری کی تو متحدہ عرب امارات نے فلسطینیوں کے لیے 20 ملین ڈالرز کی انسانی امداد کا اعلان کرنے میں بھی تیزی دکھائی۔

بیروت میں عصام فیرس انسٹی ٹیوٹ فار پبلک پالیسی اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کے ڈائریکٹر جوزف باہوت نے واضح کیا کہ متحدہ عرب امارات اور ابراہم معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر یعنی بحرین اور مراکش کو ’’کافی تنگ لائن‘‘ پر چلنا پڑے گا جیسا کہ انہوں نے فلسطینیوں کے لیے عوامی ہمدردی کے ساتھ اسرائیل سے کیے گئے وعدوں کو اہمیت دی۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات میں خلیجی ماہر سنزیا بیانکو کا کہنا ہے کہ فی الحال وہ اس ’’انتہائی تکلیف دہ‘ صورتحال کو ’’شہریوں کی حفاظت کے خیال پر توجہ مرکوز کر کے‘‘ راستہ نکال رہے ہیں۔ تاہم باہوت نے وضاحت کی کہ یہ حربہ اسرائیلی انتقامی کارروائیوں کے سامنے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جو شاید بہت پرتشدد ہو گا۔