اسٹیٹ بینک کے ملازم کی تنخواہ 40 لاکھ روپے ہونے پر سینیٹرز کا اعتراض

سینیٹ اجلاس کے دوران ایوان میں موجود سینیٹرز کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے ملازمین کی تنخواہوں پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سوال کیا کہ نگراں وزیرِ خزانہ کہاں ہیں جس پر ایوان میں موجود ایک ممبر نے جواب دیا کہ نگراں وزیرِ خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہیں، اس پر چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ اوہ چلیں پھر چپ رہتا ہوں۔

بعد ازاں وفاقی نگراں وزیرِ اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے ایوان کو بتایا کہ نگراں وزیر خزانہ سینیٹ میں ہیں وہ وزارت خزانہ کے افسران سے بریفنگ لے رہی ہیں۔

جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ نگراں وزیر خزانہ سینیٹ میں ہیں تو ایوان میں آئی کیوں نہیں؟ انہیں بلائیں۔

کچھ دیر بعد نگراں وزیرِ خزانہ شمشاد اختر ایوان میں پہنچ گئیں۔

وزیرِ خزانہ کا تحریری جواب

نگراں وزیرِ خزانہ نے سینیٹ اجلاس کے دوران ایوان میں تحریری جواب پیش کر دیا۔

نگراں وزیرِ خزانہ کے تحریر جواب کے مطابق جولائی تک چیف جسٹس وزیرِ اعظم ڈیم فنڈ میں رقوم کی مالیت 11 ارب 46 کروڑ روپے تھے، اس فنڈ پر سرکاری منافع کی صورت میں 6 ارب 29 کروڑ روپے موصول ہو چکے ہیں، اس وقت فنڈ کی مالیت 17 ارب 86 کروڑ روپے ہو چکی ہے۔

نگراں وزیر خزانہ کا تحریری جواب میں بتانا تھا کہ اس وقت تک اکاؤنٹ سے کوئی رقم باہر نہیں نکالی گئی، رقم صرف عدلیہ کے فیصلے پر ہی نکالی جا سکے گی۔

اجلاس کے دوران سینیٹرز نے اسٹیٹ بینک کے ملازمین کی تنخواہوں پر اعتراض کیا۔

سینیٹر دنیش کمار کا کہنا تھا کہ ایک ایک ملازم کی تنخواہ چالیس لاکھ روپے ہے، سینیٹر پلوشہ خان نے سوال اٹھایا کہ کون سا ایسا کام ہے کہ ان کی 40 چالیس لاکھ تنخواہ ہے۔

نگراں وزیرِ خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ دنیا بھر میں سینٹرل بینک کا سیلری اسٹرکچر سب سے مختلف ہوتا ہے، بینکنگ سیکٹر کی تنخواہیں بہت بڑھ چکی ہیں، اس لیے اہم تھا کہ اسٹیٹ بینک کی تنخواہ اچھی ہو۔