پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
قربانی کی بجائے رقم ضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کا شرعی حکم
تفہیم المسائل
سوال: بعض لبرل لوگ کہتے ہیں: ایامِ عیدالاضحی میں دنیا بھر میں اور خاص طور پر ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں جانور ذبح ہوتے ہیں اور یہ شعار معیشت کے اصولوں کے منافی ہے ،پس اس کی بجائے اگریہ رقم ضرورت مندوں ، ناداروں اور زیریں طبقات کی بنیادی ضروریات اور فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے تو انسانیت کے لیے اس کی افادیت زیادہ ہے، اس کی بابت شریعت کیا رہنمائی دیتی ہے؟ (عبداللہ ،لاہور )
جواب: اگر دین کا مدار محض عقل پر ہو اور ہر بات اور ہرحکم کو مادّی پیمانوں پر پرکھا جائے تو یہ بات بادی النظر میں ذہن کو اپیل کرتی ہے ،لیکن شریعت کے احکام کا مدار عقل پر نہیں، بلکہ وحیِ ربّانی پر ہے ،اسلامی عبادات تعبُّدی امور ہیں ،یعنی جو شریعت نے بتایا ،اس پر سرتسلیم خم کرنا اور بلاچوں وچرا عمل کرنا ہے، نیز یہ عقلی سوال تب بنتا ہے، جب قربانی کا اصل مقصد گوشت پوست کا حصول ہو ،لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ: ’’اور(اللہ کی بارگاہ میں)ہرگز (قربانی کے جانوروں کا) گوشت اور خون نہیں پہنچتا ،بلکہ (اس فعل قربانی کے پیچھے کارفرما) تقویٰ اس کی بارگاہ میں پہنچتا ہے ،(سورۃالحج :37)‘‘۔
نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ترجمہ:’’ ایامِ قربانی میں انسان کا کوئی بھی (نیک) عمل اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قربانی کا یہ جانور قیامت کے دن (شہادت کے طور پر) اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت (یعنی مجسّم) حاضر ہوگا اور (قربانی کے جانورکا ) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور درجۂ قبولیت کو پالیتا ہے ،پس (اے مسلمانو!) تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو، (سنن ترمذی:1493)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عبادت کی نیّت سے حلال جانور کا خون بہانا (یعنی شرعی طریقے سے ذبح کرنا) ہے، گزشتہ امتوں میں غنیمت اور صدقات کے مال کو کھلے میدان میں رکھ دیاجاتا تھا ، پھر آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی ، چنانچہ آپ ﷺ سے یہود نے یہی مطالبہ کیاتھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ:’’ جنہوں (یہود) نے کہا: اللہ نے ہم سے یہ عہد لیاہے کہ ہم اُس وقت تک کسی رسول پر ایمان نہ لائیں، جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی پیش نہ کرے ،جسے (آسمانی) آگ کھاجائے ، آپ کہیے ! مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے رسول کھلی نشانیاں اوروہ قربانی بھی لائے ، جس کی تم نے فرمائش کی ہے ،تو اگر تم (اس مطالبے میں ) سچے ہوتو تم نے انھیں کیوں شہید کیا ،(آل عمران:183)‘‘۔
غرض یہ اس امّت پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ قربانی کا اجر بھی پائیں اور گوشت پوست سے استفادہ بھی کریں اوران کے عیوب پر پردہ بھی پڑا رہے، ورنہ کسے خبر کہ دس ہزار روپے والے کی قربانی قبول ہوئی یا پچیس لاکھ روپے والے کی ، آج جو لوگ اپنی قربانیوں کی سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور گلی کوچوں میں نمائش کرتے ہیں ،اگر گزشتہ امتوں کی طرح عَلانیہ اُن کی قربانی رَدّ ہوجاتی تووہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہوتے ،کیونکہ جس کی قربانی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ردّ ہوجاتی ، اسے آسمانی آگ نہ کھاتی ،جیساکہ سورۂ مائدہ میں آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کی قربانی کا ذکر ہے کہ ایک کی قبول ہوگئی اور دوسرے کی ردّ ہوگئی اور اس نے طیش میں آکر اپنے بھائی کو قتل کردیا ، جو زمین پر بنی آدم کا پہلا قتل تھا۔
نیز یہ ایک معاشی عمل بھی ہے ،بہت سے لوگ سال بھرمویشی بانی کرتے ہیں کہ عیدالاضحی کے موقع پر انھیں فروخت کریں گے ، کیونکہ اس سے اُن کا سال بھر کا روزگار چلتا ہے، نیز اس کے ساتھ اوربھی ذیلی شعبے ہیں: چارے والے، مویشیوں کے معا لجین ، دوائیں تیار کرنے والے ، ٹرانسپورٹرز، مویشیوں کی نگہداشت کرنے والے ، قصاب برادری، چمڑے کا کاروبار، چرمی مصنوعات اور اس سے وابستہ ذیلی شعبے سب شامل ہیں، نیز ایسا بھی نہیں کہ گوشت وافر ہوجاتاہے اور رُل رہا ہوتا ہے۔ ہم کراچی جیسے شہر میں دیکھتے ہیں کہ گوشت کے طلب گار قطاروں میں لگے ہوتے ہیں، قربانی والے خود بھی کئی دن استعمال کرتے ہیں ، الغرض یہ بجائے خود ایک کثیر المقاصد معاشی عمل ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام حکمتوں پر مبنی ہوتے ہیں ،انہیں جاننے کے لیے عقلِ عیّار نہیں بلکہ عقلِ سلیم کی ضرورت ہے۔