معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سپریم کورٹ کا ’’پنچایتی فیصلہ‘‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جب لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی رہنمائوں اور سپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے دائر کی جانے والی اپیلوں کی سماعت شروع کی تو ماحول انتہائی بوجھل تھا۔ فریقین کے وکلا کے چہروں پر بھی تنائو کے آثار تھے اور دور و نزدیک بیٹھے ہوئے کارکن بھی مضطرب تھے‘ ایک بڑی تعداد آگ بگولہ تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف اپنے 176 ارکان کو لاہور کے ایک ہوٹل میں یک جا دکھا کر اپنی اکثریت واضح کر چکے تھے‘ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ق) کو اندازہ ہو رہا تھا کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق سہ پہر چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر کی صدارت میں منعقد ہونا تھا اور ارکانِ اسمبلی کو ایک بار پھر ووٹ ڈال کر اپنا قائد چننا تھا۔ اب اسمبلی کی مجموعی تعداد کی اکثریت یعنی 186ووٹ جیتنے والے کو درکار نہیں تھے اور جو ارکان بھی اجلاس میں موجود ہوتے ان کی اکثریت مستقبل کے تاجدار کا فیصلہ کر دیتی۔ پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان جنہوں نے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر بساط لپیٹ ڈالی تھی، اقتدار ان کی جھولی میں ڈال دیا تھا‘ نہ صرف اپنی نشستوں سے محروم ہو چکے تھے بلکہ ان کے ڈالے گئے ووٹ بھی گنتی سے نکال باہر کرنے کا حکم صادر ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر کردہ صدارتی ریفرنس کہ پارٹی قیادت کی ہدایت کے برعکس ووٹ ڈالنے والوں کا معاملہ واضح کیا جائے‘ زیر سماعت تھا۔ دستور میں یہ بات تو صاف الفاظ میں درج ہے کہ ایسے ارکان اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے‘ یہ فیصلہ کرنے کے لیے طریق کار بھی لکھا ہوا ہے لیکن یہ کہ انہیں تاحیات نااہل قرار دیا جائے یا ان کے ووٹ شمار ہی نہ کیے جائیں‘ یہ کہیں درج نہیں تھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت جاری تھی کہ پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ درپیش ہو گیا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے استعفیٰ دے دیا تھا اور چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار بنا ڈالے گئے تھے۔ چودھری صاحب کو اِس سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں نے اپنا وزیراعلیٰ قرار دیا تھا لیکن چودھری صاحب نے اپنے فرزندِ ارجمند چودھری مونس الٰہی کی رفاقت (یا سیادت) میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ اب حمزہ ان کے مقابل تھے کہ مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادی 48سالہ حمزہ شہباز شریف کا متبادل تلاش نہیں کر پائے تھے۔ حمزہ کم و بیش ربع صدی سے سیاست میں تھے‘ کئی بار جیل کا مزہ چکھ چکے‘ قومی اسمبلی کے رہنما رہ چکے اور صوبائی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے فرائض ادا کر چکے تھے‘ سو وہ میدان میں لاکھڑے کیے گئے‘ 197 ارکانِ اسمبلی نے ان کے حق میں ہاتھ کھڑے کر دیے جن میں 25 پی ٹی آئی کے باغی بھی تھے۔
حمزہ کے انتخاب کے بعد سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ جماعتی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان کے ووٹ گنے نہیں جائیں گے‘ اس پر بہت سے قانونی‘ سیاسی اور صحافتی حلقے ششدر رہ گئے‘ سپریم کورٹ بار نے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا لیکن جو بھی تھا اور جیسا بھی تھا‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ حرفِ آخر تھا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ یہ ماضی سے نافذ ہوگا یا آئندہ ایسی حرکت کرنے والے اس کی زد میں آئیں گے۔ منطقی بات تو یہ تھی کہ یہ موثر بہ ماضی نہ ہو۔ مستقبل میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنی جماعتوں کے باغیوں سے محفوظ ہو جائیں۔ ان کے ترکش میں ایسا تیر نہ رہے جس سے وہ اپنی قیادت کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے سکیں۔ پی ٹی آئی اور چودھری صاحب لاہور ہائی کورٹ پہنچے اور اس فیصلے کو موثر بہ ماضی کرانے کے در پے ہو گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے ان کی استدعا منظور کر لی اور حکم دیا کہ 16اپریل کو ہونے والے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے 25 منحرف ارکان کے ووٹوں کو خارج کر کے دوبارہ گنتی کی جائے اور اگر اسمبلی کی مجموعی تعداد کی اکثریت کسی کے پاس نہ ہو تو پھر دستور کی دفعہ 130 کے تحت ”رن آف‘‘ انتخاب کرایا جائے جس میں حاضر ارکان کی اکثریت حاصل کرنے والا وزیراعلیٰ قرار پائے گا۔ حمزہ شہباز شریف کے حق میں اکثریت واضح تھی کہ ان کے مخالف سپریم کورٹ جا پہنچے اور حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کے خلاف دہائی دینا شروع کر دی۔ یہ بحران جو پنجاب اسمبلی کو لپیٹ میں لیے ہوئے تھا نظر بظاہر عدالتی فیصلوں ہی کا نتیجہ تھا۔ اگر سپریم کورٹ پارٹی قیادت کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے والوں کے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ نہ دیتی اور اگر لاہور ہائی کورٹ کا لارجر بنچ اسے ماضی پر نافذ نہ کرتا تو پنجاب کی حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی جگہ بیٹھی پائی جاتیں۔ ہا ہا کار البتہ مچی رہتی‘ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ق) کا واویلا جاری رہتا‘ طرح طرح کی درخواستیں عدالتوں میں پہنچتی رہتیں۔
یہ طویل پس منظر نوکِ قلم پر بے ساختہ آ گیا ہے‘ اب چلئے سپریم کورٹ کی طرف کہ جب درخواست گزار وہاں پہنچے تو فاضل عدالت نے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اور ان کے مقابل امیدوار دونوں کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا‘ مختصر نوٹس پر وہ لاہور رجسٹری میں پہنچ کر وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہو گئے۔ عدالت نے انہیں کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنے کے لیے کہا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق سہ پہر چار بجے انتخاب ہونا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی نے میاں محمود الرشید کی مشاورت سے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ تسلیم کرنے کی حامی بھر لی اور حمزہ نے چار بجے سہ پہر کو ہونے والے انتخاب کو 20 منحرفین کی خالی ہونے والی نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب کے بعد تک موخر کرنے سے اتفاق کر لیا۔ سپریم کورٹ نے اس ”پنچایتی فیصلے‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے ماحول خوشگوار بنا دیا۔ چودھری پرویز الٰہی (+میاں محمود الرشید) حمزہ شہباز شریف اور عمران خان کے اتفاق نے کایا پلٹ دی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی اور میاں محمود الرشید چار بجے سہ پہر کے اجلاس سے ”محفوظ‘‘ رہ گئے۔ حمزہ شہباز نے ضمنی انتخابات کے نتائج کا سامنا کرنے کا رِسک لے لیا کہ اگر آج پولنگ ہو جاتی تو بھی ضمنی انتخابات میں مطلوبہ نشستوں پر کامیابی نہ حاصل ہونے کی صورت میںان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی تھی۔ انہوںنے خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ری پولنگ کو موخر کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اس اتفاقِ رائے نے پی ٹی آئی کے ”عقابوں‘‘ کو تو مایوس کیا ہے لیکن یہ امید بھی پیدا کر دی ہے کہ اگر جسٹس عمر عطاء بندیال جیسا سرپنچ میسر رہے تو کسی دن عمران خان‘ شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان بھی آئندہ انتخابات پر اتفاق ہو سکتا ہے کہ جمہوریت لوگوں کی رائے معلوم کرنے اور اس کے سامنے سر تسلیمِ خم کرنے ہی کا نام ہے‘ اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے کا نہیں۔
بریگیڈیئر حامد سعید کے افسانے
صاحبِ ”سیف و قلم‘‘ بریگیڈیئر حامد سعید اختر اب ایک افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں‘ ان کا افسانوی مجموعہ ”فریبِ ہستی‘‘ کے عنوان سے شائع ہو کر خراجِ تحسین حاصل کر رہا ہے۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ میں دادِ شجاعت لی‘ خفیہ اداروں میں بھی ذمہ داریاں سنبھالے رکھیں اور جب ریٹائر ہوئے تو قلم کے محاذ پر مورچہ زن ہو گئے۔ ”صد شعر غالب‘‘ لکھ کر اپنی غالب شناسی کا لوہا منوایا۔ کالم نگار اور تبصرہ نگار کی حیثیت میں شہرت پائی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی عمر کے حوالے سے معرکے کا کتابچہ تحریر کیا۔ ان کی افسانہ نگاری اپنے ماحول اور اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہے۔ اس میں حقیقت کا عنصر نمایاں ہے‘ پُرلطف افسانوں کے شائقین کے لیے یہ ایک تحفہ خاص ہے۔