معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ولیم ویلس اور ٹیپو سلطان کی تلواریں
ایبرڈین شمال کی طرف برطانیہ کا آخری بڑا شہر ہے۔ گو کہ اس کے بعد اوپر والی سمت کئی چھوٹے چھوٹے شہر اور قصبے موجود ہیں مگر وہ شہر والی بات نہیں۔ برطانیہ میں شمال کی جانب جاتے جائیں سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایڈبنرا سے ڈنڈی اور پھر وہاں سے ایبرڈین کی طرف جاتے ہوئے سردی بڑھتی گئی۔
ایبرڈین سے واپسی پر میں نصر اقبال کے اصرار کے باوجود بغیر رکے گلاسگو جانا چاہتا تھا مگر فخر اقبال نے نہایت ہی ٹیکنیکل طریقے سے مجھے ڈنڈی شہر کے درمیان سے گزرنے پر قائل کر لیا۔ ہم شہر کے اندر سے جب ساحل سمندر سے متصل سڑک سے گزر رہے تو فخر اقبال نے بائیں طرف کھڑے ہوئے ایک قدیم بادبانی جہاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ”ڈسکوری‘‘ ہے۔ تین بادبانی مستولوں پر مشتمل لکڑی کا یہ روایتی جہاز برطانیہ میں بننے والا اپنی نوعیت کا آخری جہاز ہے۔ 1900ء میں تعمیر ہونے والا یہ بحری جہاز پہلے تو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہا؛ تاہم پہلی جنگ عظیم کے بعد 1923ء میں برطانوی حکومت نے اسے دنیا کے دوسرے سرے پر جنوبی سمندر (بحر انٹارکٹک) میں سائنسی تحقیق کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا۔ یہ اس سلسلے میں اپنی نوعیت کا پہلا ”رائل ریسرچ شپ‘‘ قرار پایا۔ یہ جہاز دو سال تک انٹارکٹک میں سائنسی تحقیق کے سلسلے میں جس مہم پر گیا تھا اسے Discovery Expedition کا نام دیا گیا تھا۔ اب یہ جہاز اور اس کے سامنے موجود اس کا عجائب گھر عوام کی دلچسپی کا مرکز ہے۔
ڈنڈی سے گلاسگو جاتے ہوئے گلاسگو سے تھوڑا پہلے سڑک سے تھوڑا ہٹ کر مشہور و معروف سٹرلنگ کاسل ہے۔ میں چند سال قبل اس قلعے کو دیکھ چکا تھا۔ یہ قلعہ سکاٹ لینڈ کی آزادی کی جدوجہد میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ اس قلعے پر نظر پڑی تو سرولیم ویلس کا خیال آیا۔ سکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی کا ہیرو اور اپنے مقصد سے وابستگی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار۔ 1270ء میں سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے ولیم ویلس کو محض پینتیس سال کی عمر میں 23اگست 1305ء کو لندن میں سمتھ فیلڈ میں پھانسی دے دی گئی۔ سلطنت برطانیہ کے خلاف بغاوت کے جرم میں اسے ایسے جرم میں دی جانے والی روایتی سزا Hanged, drawn and quartered کے عمل سے گزارا گیا۔ یعنی اسے پہلے پھانسی دی گئی‘ پھر اس کے مردانہ اعضا کاٹ کر علیحدہ کیے گئے اور جلائے گئے‘ اس کا پیٹ چاک کیا گیا، بعد ازاں اس کا سر کاٹنے کے بعد اس کے بقیہ جسم کو چار حصوں میں کاٹا گیا۔ اس کے سر کو تارکول مل کر لندن برج پر لٹکا دیا گیا اور اس کے جسم کے چار حصوں کی نیو کاسل ‘پرتھ‘ بروک اور سٹرلنگ میں نمائش کی گئی تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ ولیم ویلس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈور ڈاول سے غداری اور سلطنت کے خلاف بغاوت کے جرم میں سزا سنائی گئی تو اس نے کہا کہ ”وہ بھلا ایڈورڈ کا باغی کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ اس کا کبھی تابع تھا ہی نہیں‘‘۔
ولیم ویلس کو اصل شہرت ”سٹرلنگ برج‘‘ والی جنگ سے حاصل ہوئی۔ 11 ستمبر 1297ء کو ہونے والی اس جنگ میں سکاٹش فوج کی قیادت ولیم ویلس اور اینڈریو مورے کر رہے تھے جبکہ انگلینڈ کی فوج کی قیادت جان وارن کر رہا تھا۔ اس جنگ میں سکاٹ لینڈ کی فوج کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ جبکہ انگلینڈ کی فوج کی تعداد بارہ‘ تیرہ ہزار تھی۔ اس جنگ میں انگلینڈ کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی اور اس کے تقریباً 5000 فوجی مارے گئے۔ جنگ سے قبل ولیم ویلس نے اپنی فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم یہاں امن قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنگ لڑنے آئے ہیں۔ اپنے دفاع کی جنگ اور اپنی مملکت کو آزاد کروانے کی جنگ‘‘۔ اس جنگ کے بعد ولیم ویلس کو ”گارڈین آف دی کنگڈم آف سکاٹ لینڈ‘‘ کا عہدہ دیا گیا۔ یہ عہدہ اسے سکاٹ لینڈ کے بادشاہ جان بیلیول نے عطا کیا۔
1298ء میں فال کرک کی جنگ میں شکست کے بعد ولیم ویلس نے جان دی بروس کے حق میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 5 اگست 1305ء کو ولیم ویلس گلاسگو کے قریب گرفتار ہوا اور اسے لندن بھیج دیا گیا۔ ویسٹ منسٹر ہال میں اس پر بغاوت اور غداری کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ سزا کے بعد اس کے کپڑے اتار کر گھوڑے سے باندھ کر سمتھ فیلڈ تک گھسیٹا گیا۔ اور پھر اس کے ساتھ وہ سلوک ہوا جو میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ جس جگہ پر اسے 23 اگست 1305ء میں پھانسی دی گئی عین اسی جگہ 8 اپریل 1956ء کو سینٹ بارتھولومیوز ہاسپٹل کی دیوار پر ایک تختی کی نقاب کشائی کی گئی جس پر لکھا تھا کہ ”میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ آزادی سب سے بہترین چیز ہے‘ کبھی بھی غلاموں والی زندگی مت جیو‘‘۔ آج ولیم ویلس سکاٹ لینڈ والوں کا ہیرو اور ”سر ولیم ویلس‘‘ ہے۔ اس کی شروع کی گئی جنگ آزادی اس کی پھانسی سے ختم ہونے کے بجائے مزید بھڑک اٹھی۔
23،24 جون 1314ء کو ہونے والے معرکۂ بانوک برن (Bannockburn) نے سکاٹ لینڈ کی آزادی پر مہر ثبت کر دی۔ ایک طرف رابرٹ دی بروس کی قیادت میں آٹھ ہزار جنگجو تھے اور دوسری طرف ایڈورڈ دوم کی قیادت میں انگلینڈ کے بیس ہزار فوجی تھے۔ اس جنگ میں سکاٹ لینڈ کی فوج کا جانی نقصان ایک سو کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف انگلینڈ کے سات سو ”نائٹس‘‘ یعنی زرہ بکتر والے جنگجو اور گیارہ ہزار سپاہی مارے گئے جبکہ پانچ ہزار فوجی قیدی بنے۔ دو دن تک جاری رہنے والی اس جنگ نے انگلینڈ کی عسکری طاقت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اگلے ایک سال میں رابرٹ دی بروس نے ڈُنبار ‘جیڈ برگ‘ بوتھ ویل اور دیگر قلعے بھی فتح کر لیے۔ ان فتوحات میں رابرٹ نے انگلینڈ کے درجنوں معززین کو قیدی بنا لیا۔ ان کے تبادلے میں انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ دوم نے رابرٹ دی بروس کی بیوی الزبتھ‘ بہن میری بروس‘ بیٹی مارجوری بروس اور بشپ آف گلاسگو کو ان کی آٹھ سالہ قید کے بعد واپس کیا۔ ان پے در پے شکستوں کے نتیجے میں پہلے ”ڈیکلریشن آف البروتھ‘‘ طے پایا جو بالآخر 1328ء میں ”ٹریٹی آف ایڈنبرگ‘ نارتھمپٹن‘‘ پر منتج ہوا۔ پوپ نے سکاٹ لینڈ کی آزادی کی ضمانت دی اور انگلینڈ نے سکاٹ لینڈ کی خود مختاری اور رابرٹ دی بروس کی بادشاہت کو تسلیم کر لیا۔ 1869ء میں اس کی فتح کی یاد میں سٹرلنگ برج والی جنگ کے مقام پر ”ویلس مونومنٹ‘‘ بنائی گئی۔ اس کی تلوار پہلے ڈمبارٹن کے قلعے میں پڑی رہی؛ تاہم بعد ازاں اسے ویلس مونومنٹ میں سجادیا گیا۔
جس طرح سکاٹ لینڈ کی آزادی کے ہیرو ولیم ویلس کے مجسمے‘ تصاویر اور ہتھیار وغیرہ سارے سکاٹ لینڈ میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند پر برطانوی قبضے کے خلاف مزاحمت کی آخری نشانی ٹیپو سلطان کی ذاتی اشیا برطانیہ بھر کے ریاستی اور نجی عجائب گھروں میں بکھری پڑی ہیں۔ انگلینڈ‘ سکاٹ لینڈ اور ویلز میں درجن بھر سے زائد عجائب گھروں میں لوگوں کی ذاتی ملکیت میں ٹیپو سلطان کی تلواریں‘ خنجر‘ زرہ بکتر‘ توپیں‘ ریاستی مونوگرام شیر سے وابستہ چیزیں اور دیگر درجنوں اشیا ان عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی تلواریں اور دیگر اشیا نوادرات کے شوقین حضرات نے نیلامی میں خرید لی ہیں۔ قریب دو عشرے پہلے ایڈنبرا کے تاریخی قلعے میں ٹیپو سلطان کی پانچ عدد تلواریں ہوتی تھیں جو اب وہاں موجود نہیں ہیں۔ میرے پاس ایک تصویر پڑی ہے جس میں مَیں اس شو کیس کے ساتھ کھڑا ہوں جس میں یہ پانچ تلواریں موجود ہیں۔ میرے پاس اب صرف یہ تصویر ہے اور ان تلواروں کی یادیں ہیں۔