معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اسپین میں دس دن
غرناطہ کی مسجدوں میں اجتماعی اذان ہوتی تھی‘ موذن مینار پر کھڑے ہو کر ایک ہی وقت میں‘ ایک ہی طرز میں اذان دیتے تھے اورحی علی الفلاح کی آواز پتھریلی گلیوں اور سرخ کھپریل کی چھتوں سے ٹکراتی ہوئی پورے شہر میں پھیل جاتی تھی‘ لوگ اللہ کا حکم سنتے تھے‘ وضو کرتے تھے اور مسجدوں کی طرف روانہ ہو جاتے تھے‘ یکم جنوری 1492 کو عشاء کی اذان ہوئی‘ اہل شہر نے معمول کے مطابق نماز پڑھی‘ چراغ بجھائے اور سو گئے‘ دو جنوری کی صبح فجر کا وقت آیا لیکن اس دن اذان نہیں ہوئی۔
دن چڑھ گیا مگر گلیاں‘ مکان اور چھتیں اللہ کے حکم کو ترستی رہیں‘ لوگ پریشانی میں باہر نکلے تو پتا چلا اندلس کی آخری مسلمان ریاست بھی رات کے اندھیرے میں فتح ہو چکی ہے‘ ابوعبداللہ محمد شہر کی چابیاں فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کر کے الحمراء خالی کر گیا ہے اور شہر اب عیسائی فوجیوں کے قبضے میں ہے‘ لوگ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر اچانک پورے شہر میں چرچ کی گھنٹیاں بجنے لگیں‘ لوگوں کی نظریںگھنٹیوں کا پیچھا کرتے کرتے مسجدوں کے میناروں سے اٹک گئیں۔
شہر کی ہر مسجد کے مینار پر چرچ کی گھنٹیاں لگ چکی تھیں اور جہاں کل تک مؤذن ہوتے تھے وہاں اب پادری گھنٹیاں بجا رہے تھے‘ پورے شہر نے گریبان پھاڑے اور دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا‘ یورپ سے مسلمانوں کی آخری ریاست ختم ہو چکی تھی۔
سقوط غرناطہ کے بعد مسلمانوں کو دو آپشن دیے گئے‘ ملک چھوڑ دیں یا پھر عیسائیت قبول کر لیں‘ لاکھوں مسلمان مراکش اور ترکی شفٹ ہو گئے اور ہزاروں نے جھوٹ موٹ کی عیسائیت قبول کر لی‘ یہ گھروں سے باہر عیسائی ہوتے تھے لیکن جوں ہی صحن میں داخل ہوتے تھے بش سے بشیر اور ڈیوڈ سے محمد داؤد بن جاتے تھے‘ وہ چھپ کر نماز بھی پڑھتے تھے اور قرآن مجید بھی‘ یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہ چل سکا‘ مخبری ہو گئی اور فرڈیننڈ نے مشکوک مسلمانوں کے لیے سور کا گوشت لازم قرار دے دیا‘ جو کھا گیا وہ بچ گیا جس نے انکار کیا وہ مارا گیا۔
یہ سلسلہ بھی سوسال تک چلتا رہا‘ 1609 میں بادشاہ نے مسلمانوں کی پوری نسل کو ملک بدر کر دیا یوں بے چارے مسلمان عیسائی ہونے کے باوجود جلاوطن ہو گئے تاہم یہ جاتے جاتے قرآن مجید‘ احادیث کی کتابیں‘ آباؤ اجداد کا شجرہ اور اپنا حال دل گھروں کی دیواروں میں چھپا گئے‘ یہ اوراق آج تک پرانی عمارتوں کی دیواروں سے نکلتے ہیں اور پڑھنے والوں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔
اس دوران پانچ سو سال تک غرناطہ میں نماز اور اذان پر پابندی رہی یہاں تک کہ2003 آیا اور حکومت نے غرناطہ میں مسجد بنانے اور اذان دینے کی اجازت دے دی اور آپ اللہ کی حکمت دیکھیے یکم جنوری 1492کو غرناطہ میں آخری اذان عشاء کی تھی اور 2003 میں پانچ سو 11سال بعد غرناطہ کی فضا میں پہلی اذان فجر کی تھی یوں اللہ نے اپنے نام کا ٹوٹا ہوا دھاگا پانچ سو سال بعد وہیں سے جوڑ دیا جہاں سے اسے توڑنے کی کوشش کی گئی تھی اور آج غرناطہ میں اسلام اپنی نشاۃ ثانیہ کے عمل سے گزر رہا ہے‘ اسپین کے باشندے اسلام بھی قبول کر رہے ہیں اور ملک میں اللہ کا پیغام بھی پھیلا رہے ہیں اور ان لوگوں میں یاسین بھی شامل ہے۔
یہ یاسین کون ہے؟ میں آپ کو بتاؤں گا لیکن ہم یاسین سے کیسے ملے ؟ یہ کہانی زیادہ دل چسپ ہے‘ ہم 70 لوگوں کا گروپ 22مئی کو اسپین کے وزٹ پر آیا‘ یہ پاکستان سے آئی بیکس کا اسپین کا پہلا ٹور تھا‘ شینجن ممالک پاکستانیوں کو گروپ ویزے نہیں دیتے لیکن اسپین ایمبیسی نے ہمارے گروپ کو پہلی مرتبہ اکٹھے ویزے دیے اور یوں ہم 70 لوگ اسپین پہنچ گئے‘ ہمارے ساتھ فیملیز بھی تھیں‘ بچے بھی‘ نوجوان بھی اور بزرگ بھی اور یاسین ہمارا گائیڈ تھا‘ یہ نو مسلم ہے‘ اس کا والد کیوبن اور والدہ اسپینش ہے۔
یاسین نے اسلام قبول کیا اور ہم سے ہزار درجے بہتر مسلمان بن گیا‘ یہ کیا خوب صورت تلاوت کرتا ہے اور اسلام کی کیا خوب صورت تشریح کرتا ہے‘ یہ میرے بیٹے شماعیل کی دریافت تھا‘ یہ دونوں فروری میں گروپ کے لیے ہوٹل اور حلال ریستوران تلاش کرتے رہے اور آخر میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ یاسین واقعی ہیرا انسان ہے‘ اس نے گروپ کی دل و جان سے خدمت کی ‘ ہم غرناطہ پہنچے تو یہ ہمیں ہر اس جگہ لے گیا جہاں سے پانچ سو سال پہلے اسلام کو نکالنے کی جسارت کی گئی تھی مگر اسلام وہاں واپس آیا اور آ کر کمال کر دیا‘ ہم الحمراء میں اس گیٹ کے سامنے بھی گئے جہاں سے ابوعبداللہ محمد نے اپنے خاندان کے ساتھ دنیا کے خوب صورت ترین محل کو الوداع کہا تھا‘ دنیا میں ہزاروں محل ہیں۔
ہزاروں نئے بھی بنیں گے لیکن الحمراء صرف ایک ہے اور یہ ایک ہی رہے گا‘ عربی زبان میں احمر سرخ رنگ کوکہتے ہیں‘ یہ محل کیوں کہ سرخ پتھروں سے بنایا گیا تھا لہٰذا اس کا نام الحمرا رکھ دیا گیا‘ محل خلیفہ محمد بن یوسف نصر نے بنایا تھا‘ وہ بنو امیہ کی شاخ بنونصرسے تعلق رکھتا تھا اور دین دار اور خوف خدا سے لبالب بھرا ہوا تھا‘ محل مکمل ہوا تو اسے دیکھ کر اس کے منہ سے واہ نکل گیا‘ بادشاہ کو فوراً احساس ہواوہ غرور کا شکار ہو چکا ہے۔
وہ اسی وقت سجدے میں گرا‘ اللہ سے معافی مانگی اور حکم دیا سفید سنگ مرمر پر ’’ولا غالب الااللہ‘‘ لکھا جائے اور پورے محل کی دیواروں پر لگا دیا جائے‘ لاکھوں ٹن سفید سنگ مرمر لایا گیا‘ ہزاروں نقاش بلائے گئے‘ انھوں نے دن رات ایک کر کے پتھر کے ہر ٹکڑے پر ’’ولا غالب الااللہ‘‘ کندہ کیا اور محل کی ہر دیوار پر نصب کر دیا ’’بے شک اللہ ہی غالب ہے‘‘ یہ فقرہ آج بھی الحمراء کی ہر دیوار پر کندہ ہے‘ ابوعبداللہ محمد الحمراء کی قدرو منزلت سے واقف تھا۔
لہٰذا اس نے اسے بچانے کے لیے ہر چھوٹی بڑی طاقت سے مدد مانگی‘ فیض کے بادشاہ کو بھی خط لکھا‘ ترکی کے عثمانی بادشاہوں کی منت بھی کی اور کیتھولک چرچ سے بھی درخواست کی لیکن اسے ہر جگہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘ دنیا میں کسی نے اس کی مدد نہیں کی لیکن ایک ذات تھی جس نے الحمراء کی حفاظت کا فیصلہ کر رکھا تھا اور وہ تھا ہمارا پروردگار‘ رب کائنات‘ اس نے اس محل کو زمین بوس نہیں ہونے دیا لہٰذا آج بھی الحمراء کی دیواریں ’’ولا غالب الااللہ‘‘ کی گواہی دے رہی ہیں۔
عیسائی دنیا کے قلب میں موجود مسلمانوں کی اس آخری نشانی کی ہر دیوار پر قرآنی آیات لکھی ہیں اور عیسائی دنیا ان آیات کی حفاظت کر رہی ہے‘ الحمراء کی دیواروں پر کندہ آیات کو چھونے پر پابندی ہے‘ حکومت اسے عالمی ورثہ کی حفاظت قرار دیتی ہے لیکن یاسین کا دعویٰ تھا یہ حکم حکومت نہیں اللہ کی طرف سے آیا تھا‘ اللہ نہیں چاہتا کسی غیرمذہب کی بے وضو انگلیاں اس کے مقدس نام اور مقدس کلام کو چھوئیں لہٰذا اس نے دیواروں کو ٹچ کرنے پر پابندی لگوا دی۔
الحمراء آج بھی دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے محل ہو‘ انسان ہوں یا پھر سلطنتیں ہوں ان کی حفاظت اللہ کرتا ہے لوگ اور حکومتیں نہیں اوروہ لوگ کتنے بے وقوف تھے جو الحمراء کی حفاظت کے لیے انسانوں کی منتیں کرتے رہے‘ وہ ایک بار سجدے میں گر کر اللہ سے مدد مانگتے تو محل کے ساتھ ساتھ آج تک ان کی سلطنت کو بھی زوال نہ آتا‘ ہم نے الحمراء میں گھومتے ہوئے چپے چپے پر اللہ کے اس اعلان کو محسوس کیا۔
الحمراء کا پانی کا نظام بہت شان دار تھا‘ دریائے ڈارومحل سے ڈیڑھ سو فٹ گہرائی میں بہتا ہے‘دنیا میں آٹھ سو سال قبل پانی کو گہرائی سے اونچائی تک پہنچانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا لیکن عربوں نے نہ صرف تازہ پانی الحمراء تک پہنچایا بلکہ پورے شہر کو بھی فراہم کیا‘ اس زمانے کے آرکی ٹیکٹ پانی کے بہاؤ سے چھ میل الٹ چلے اور جہاں محل اور پانی کا بہاؤ برابر ہوگیا وہاں سے انھوں نے پانی کا چینل بنایا اور چھوٹی سی آبی شاخ محل کی طرف موڑ دی اور یوں تازہ پانی محل پہنچ گیا‘ اس سے انھوں نے آب پاشی بھی کی‘ فوارے بھی چلائے ‘ غسل خانے بھی آباد کیے اور پانی کو گھما کر شہر بھی پہنچایا یوں پانی پورے شہر سے گھوم کر دوبارہ دریا میں شامل ہو گیا‘ آب رسانی کا یہ سسٹم آج آٹھ سو سال بعد بھی قائم دائم ہے‘ آج بھی الحمراء کے فوارے کشش ثقل سے چل رہے ہیں اور محل کے درختوں اور پودوں کی آب یاری بھی اسی سے ہو رہی ہے۔
ہمارے گروپ نے اسپین میں دس دن گزارے‘ ہم میڈرڈ بھی گئے‘ تولیدو بھی‘ قرطبہ بھی‘ سیویا بھی‘ غرناطہ بھی‘ مورسیا بھی‘ علی کانتے بھی‘ ویلنشیا بھی اور بارسلونا بھی‘ ہم جہاں گئے لوگوں نے بڑی خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا‘ یہ پاکستان سے ٹورسٹ کا پہلا گروپ تھا لہٰذا ہمیں دیکھ کر پاکستانیوں کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ جا تے تھے‘ یہ کہتے تھے ہم نے آج تک یہاں صرف انڈین گروپ دیکھے ہیں‘ ہم آج اسپین کی گلیوں میں اردو سن کر کتنے خوش ہیں آپ تصور بھی نہیں کر سکتے‘ کاش پاکستان کے لوگ بھی اس عزت اور فخر کے ساتھ یورپ کی گلیوں میں پھر سکیں۔
ہم غرناطہ کے میئر فرانسسکو روڈ ریگوئز(Francisco Rodríguez)سے بھی ملے‘ ہمارے گروپ فیلو سیف اللہ ضیاء نے اسے پنجابی پگ گفٹ کی‘ میئر پگڑی پہن کر آفس سے باہر آ گیا اور دیر تک گروپ کے ساتھ تصویریں بنواتا رہا‘ میئرنے گروپ کو دعوت دی آپ لوگ غرناطہ میں بزنس کریں‘ ہم آپ کو زمین بھی دیں گے اور قرضے بھی‘ ہمیں بزنس مینوں کی اشد ضرورت ہے‘ ہم نے اس سے وعدہ کیا‘ ہم ستمبر میں بزنس مینوں اور سرمایہ کاروں کا گروپ لے کر غرناطہ آئیں گے‘ اس نے خوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا آپ لوگ آئیں‘ میں شہر کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کو آپ کے سامنے بٹھا دوں گا تاکہ غرناطہ میں بھی ایک چھوٹا سا پاکستان بن سکے۔