معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
شکر ہے بات تو سمجھ آ گئی ہے
جان عجب مصیبت میں ہے۔ سچ بولیں تو لوگ اعتبار نہیں کرتے اور جھوٹ بولنے پر دل راضی نہیں ہے۔ اب بتائیں بندہ کیا کرے؟سچ تو یہی ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ ملک میں کیا چل رہا ہے اور یہ کب تک چلے گا۔ ہاں! خواہش کو خبر بنا لیں تو اور بات ہے۔ اب بندہ کیا لکھے؟ پاکستان کی تو بات ہی چھوڑیں ادھر امریکہ میں بھی یہ عالم ہے کہ ہر بندہ پریشان ہے اور جس دوست کے ساتھ بھی اس کی گاڑی میں بیٹھ کر سفر کیا ہے وہ دوسرے یا تیسرے چوک تک تو صبر کرتا ہے اور پھر اس سے اگلے چوک کی نکر پر بنے ہوئے پٹرول پمپ جسے امریکہ میں گیس سٹیشن کہتے ہیں کے کنارے پر لگے ہوئے الیکٹرانک بورڈ پر چمکتی ہوئی پٹرول کی قیمتوں پر نظر دوڑاتا ہے اور پھر بتاتا ہے کہ پٹرول پچھلے چند ماہ میں تقریباً دوگنی قیمت کا ہو گیا ہے۔ کیلی فورنیا میں تو اور بھی برا حال ہے۔ امریکہ میں ہمارے برعکس پٹرول کی قیمت حالانکہ حکومتی کنٹرول میں نہیں ہے اور ہر کمپنی اپنی مرضی سے قیمت لگاتی ہے اور مارکیٹ میں بڑی مسابقت اور مقابلے کا رحجان ہے لیکن اس کے باوجود قیمتیں آسمان پر ہیں اور ادھر کیلی فورنیا میں باقی امریکہ سے تیل تقریباً ایک ڈالر فی گیلن مہنگا ہے۔
ایک طرف کیلی فورنیا میں پٹرول کی قیمت باقی امریکہ سے کہیں زیادہ ہے اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ جگہ جگہ تیل نکالنے والے نلکا نما کنویں ہیں اور مسلسل اوپر نیچے ہو کر چل رہے ہیں اور تیل نکالے جا رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ شاپنگ مال کی پارکنگ لاٹ کے اندر تین چار تیل کے نلکے چل رہے ہیں۔ پرانے ہینڈ پمپ کی ہتھی کی مانند لمبے سے گارڈر کے اگلے سرے پر چونچ سی بنی ہوئی ہے اور مسلسل کسی پرندے کی مانند اوپر نیچے ہل رہے ہیں جیسے دانہ چگ رہے ہوں حتیٰ کہ ایک میکڈونلڈز کی پارکنگ میں جالی سے حفاظتی باڑ بنی ہوئی ہے اور اس کے اندر یہی تیل کا نلکا چل رہا ہے مگر تیل کی قیمت ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی۔ میں نے شفیق سے پوچھا کہ ادھر سارے امریکہ میں اتنا تیل نکل رہا ہے کہ باہر سے بہت ہی کم منگوانا پڑتا ہے‘ زیادہ کرایہ بھی نہیں پڑ رہا‘ کسی اور ملک کی زور زبردستی بھی نہیں ہے پھر بھی تیل اتنا مہنگا کیوں ہے؟ کیا زمین نے سستا پٹرول نکالنے پر پابندی عائد کر دی ہے؟ کیا خود تیل نے اپنی کم قیمت پر باہر آنے سے انکار کر دیا تھا؟ تیل کو نکالنے یا صاف کرنے کی قیمت دوگنی ہو گئی تھی؟اگرایسا نہیں تو پھر تیل پچپن ساٹھ ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر ایک سو ڈالر فی بیرل سے بھی نو دس ڈالر اوپر جا چکا ہے۔ اگر اس کی وجہ روس اور یوکرین کی جنگ ہے تو آخر الاسکا‘ نیو میکسیکو‘ کیلی فورنیا‘ ٹیکساس اور اوکلاہوما وغیرہ سے نکلنے والا امریکی تیل اس جنگ کی زد میں کس طرح آ گیا ہے؟ شفیق کہنے لگا: تمہارے سوال تو ٹھیک اور نہایت مناسب ہیں لیکن میرے پاس ان سوالات کا کو بھی منطقی جواب نہیں ہے۔ تمام تیل کمپنیاں جو آخر میں جا کر محض پانچ چھ بڑی کمپنیوں کا لوٹ مار کرنے والا کارٹل نکلتا ہے کسی کے کنٹرول میں کیوں نہیں؟ شفیق ہنس کر کہنے لگا: تم نے تین چار دن پہلے شاید امریکی صدر جوبائیڈن کی لاچاری نہیں ملاحظہ کی۔ وہ اس بحران کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا تو تنگ آ کر کہنے لگا کہ ان آئل کمپنیوں نے اتنا پیسہ بنا لیاہے اتنا پیسہ تو خدا کے پاس بھی نہیں۔
اوپر سے کیلی فورنیا میں ہسپانوی زبان نے بڑا کنفیوژ کر رکھا ہے۔ لکھتے انگریزی کا جے (J) ہیں اور اسے پڑھتے ح ہیں۔ شہر کا نام لکھنے میں سان جوزے ہے لیکن اسے پڑھتے سان ہوزے ہیں۔ یہی حال صحرائے مہاوی کا ہے جسے لکھتے مجاوی ہیں لیکن پڑھتے ہوئے جیم کو”ہ ‘‘میں بدل دیتے ہیں۔ ایک جگہ El Pollo Locoلکھا ہوا تھا۔ پوچھا کیا ہے :تو معلوم کہ میکسیکن کھانوں کی ایک ریسٹورنٹ چین ہے اور پڑھنے میں ال پویو لوکو ہے۔ پتا چلا کہ پولو کے دو عدد ایل خاموش یعنی سائلنٹ ہیں۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے: واللہ عالم اس کی کیا وجہ ہے۔ ادھر سان ہوزے پہنچے تو ایک سڑک کا نام تھا ال کمینو۔ نوید سے پوچھا کہ یہ ”ال‘‘ ہسپانوی ہے یا عربی والا۔ جواب ملا: ہسپانوی والا ہے مگر اسے عربی کے متبادل بھی سمجھ لیں تو کوئی حرج نہیں۔ پھر پوچھا کہ اس ”کمینو‘‘سے کیا مراد ہے؟ یہ اردو والے کمینے سے نکلا ہے یا یہ بھی ہسپانوی لفظ ہے؟ نوید نے ہنس کر کہا: ہے تو ہسپانوی لیکن آپ اسے بے شک اردو والا ہی سمجھ لیں۔
نوید کہنے لگا :آپ نے مجھ سے اتنی باتیں پوچھ لی ہیں‘ کوئی بات میں پوچھ سکتا ہوں؟ میں نے کہا: پوچھ لو۔ کہنے لگا: پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: میاں! یہ سوال تو نہ ہوا سیدھا سیدھا پریشان کرنے والی بات ہو گئی۔ جہاں کنفیوژن کا یہ عالم ہو کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی جیسے کائیاں اور اندر کی خبر رکھنے والے بلکہ اڑتی چڑیا کے پَر گننے والوں کے بااعتبار اور قدیمی خدمتگار ہوں اور ہر پالیسی کے بنانے میں کسی حد تک حصے دار رہے ہوں‘ خود اتنے کنفیوژ ہوں کہ یہ فیصلہ تک نہ کر پا رہے ہوں کہ کس فریق کے ساتھ کھڑے ہونا ہے اور انہیں یہ بھی سمجھ نہ آ رہی ہو کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے تو بھلا میں فی الوقت پردیسی یہ بات کیسے بتا سکتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ اسی کنفیوژن کے بارے بالآخر چودھریوں نے فیصلہ کیا کہ آدھا خاندان ایک طرف ہو جائے اور باقی آدھا ٹبر دوسری طرف کھڑا ہو جائے تو اس سے تم خود اندازہ لگا لو کہ حالات کتنے پیچیدہ اور سیاسی بساط پر کیسا گھڑمس مچا ہوا ہوگا جس نے مقتدرہ کے ان انتہائی وفاداروں تک کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔
میاں شہباز شریف کو اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں کس نے پھنسایا ہے؟ میاں نواز شریف کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے برادرِ خورد اور بھتیجے پر مشتمل مرکزی اور صوبائی حکومت کا کیا مستقبل ہے اور عدالتوں کو مطلوب ریکارڈ تعداد پر مشتمل کابینہ کب تک چلے گی اور اپنے پہلے سے ہی پورے پلیٹ لیٹس کے باقاعدہ پورے ہونے کے باوجود پاکستان آنے یا نہ آنے کا فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں۔ جہاں کسی زمانے میں پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک اسحاق ڈار گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ سے اپنی سینیٹر شپ کا حلف نہ اٹھا سکے ہوں اور اپنی حکومت بننے کے بعد بھی پاکستان آ کر اپنی سینیٹری کا حلف اٹھانے پر تیار نہ ہوں تو بھلا حالات اور مستقبل کے بارے میں یہ فقیر کیا عرض کر سکتا ہے؟ جہاں مولانا فضل الرحمان جیسے چالاک ِاعظم کو مایوسی سے غشی پڑی ہو۔ جہاں زرداری اپنا سارا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بھول گیا ہو اور عمران خان کو یہ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ انہوں نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا ہے یا ضمنی الیکشن لڑنے ہیں‘ بھلا وہاں عام آدمی کو کیا سمجھ آ سکتی ہے کہ ملکِ عزیز میں کیا ہو رہا ہے؟ جہاں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی ہوائی استعفے دے کر گھر بیٹھے ہوں اور عمران خان کراچی والوں پر تاو ٔ کھا رہے ہوں کہ انہوں نے این اے 240 کے الیکشن میں اپنا امیدوار کیوں کھڑا نہیں کیا۔ وہ اس اسمبلی میں جانے کیلئے بھی تیار نہ ہوں اور این اے 245کے ضمنی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے والے بھی ہوں بھلا وہاں کسی کو کیا پتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ یہ بات آہستہ آہستہ سب کو سمجھ آتی جا رہی ہے کہ اس ساری بھسوڑی کے پیچھے کون ہے۔ سو قارئین ! ہمارے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا‘ لیکن شکر ہے بات تو سمجھ آ گئی ہے۔