معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
شکریہ میرے عقیدت مند دوست!
میرے کالم لکھنے کے اپنے آداب ہیں، میں اگر گھر سے شیو کرکے کپڑے چینج کرکے آئوں تو کالم لکھنا قدرے آسان ہو جاتا ہے اور اگر کبھی ایسا نہ ہو اور یہ دونوں کام میں اپنے دفتر میں کروں تو یہ کام زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے یونیفارم پہننے کے بعد انسان خود کو ڈیوٹی پر تصور کرتا ہے۔ میرا یونیفارم یہی ہے کہ خود کو فریش محسوس کروں، صاف ستھرے کپڑے ہوں، شیو کیا ہو، لکھنے کی میز پر رائٹنگ پیڈ بھی ہو، سامنے تین چار مختلف قسم کے قلم پڑے ہوں، اس کے بعد میں خود کو تھوڑی دیر کے لیے معاشرے کا ایک معزز شہری اور ایک ذمے دار اہلِ قلم تصور کرکے اللہ کا نام لوں اور اپنے ’’کام‘‘ پر حاضر ہو جائوں۔
میں نے آج یہ سب کچھ کیا، دفتر میں آکر شیو کیا، وارڈ روب میں سے شرٹ پتلون وغیرہ نکالی، قلم ہاتھ میں لیا اور لکھنے بیٹھ گیا۔ لکھنے کیا بیٹھا بس ’’بیٹھ‘‘ ہی گیا۔ بس ایک ہاتھ میں قلم ہے اور دوسرا ہاتھ اپنے ’’رخسار‘‘ پر رکھا ہے۔ پوز بالکل ایک لکھاری کا ہے مگر سمجھ کچھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھوں۔ ایسا آج ہی نہیں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہوا۔ ایسے مواقع پر میں وہ دعا مانگتا ہوں جو حضرت موسیٰ ؑ نے مانگی تھی کہ یارب میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے کام آسان بنا دے۔ کئی دفعہ یہ دعا قبولیت کے درجے پر پہنچ جاتی ہے اور کبھی نہیں بھی پہنچتی مگر میں بہت زیادہ نہیں اڑتا کیونکہ میں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی جب مشکل میں پھنسا ایک شخص ایک مکھی کو مکڑی کے جالے میں سے نکلنے کی کوشش کرتے دیکھتا ہے، وہ نکل نہیں پاتی مگر وہ اپنی کوشش جاری رکھتی ہے اور بالآخر اس جال میں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور میں بھی بالآخر اس مشکل سے نکل آیا ہوں!
اور مجھ پر یہ احسان ایک ملاقاتی نے کیا ہے۔ میں ابھی اوپر کی سطور ہی لکھ رہا تھا کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ ایک صاحب آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے کہا ان صاحب سے کہیں کہ یہ ان کے کالم لکھنے کا وقت ہے اور وہ اس میں مصروف ہیں۔ مجھے نائب قاصد نے بتایا کہ سر میں نے انہیں کہا تھا مگر وہ کہتے ہیں میں نے صرف سلام کرنا ہے۔ میں نے ان صاحب کو پوری عزت اور احترام سے اندر لانے کے لیے کہا، میں ان صاحب کو پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا، لمبا قد، دبلے پتلے، عمر یہی کوئی پچاس برس اور پینٹ شرٹ میں ملبوس چہرے سے لگا کہ یہ بھی ابھی ابھی میری طرح اپنے رخساروں پر استرا چلا کر آ رہے ہیں۔ میں ان سے اٹھ کر ملا، انہوں نے میرے مصافحے والا ہاتھ بہت بری طرح اپنی گرفت میں لے لیا جس سے ان کی گرم جوشی واضح ہوتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے جو حرکت کی میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ انہوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا تو میں نے فوراً ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا کیوں شرمندہ کرتے ہیں پھر وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنا شروع کر دیا۔ مجھے پریشان دیکھ کر کہنے لگے ’’آپ کو دیکھنے کی عمر بھر کی خواہش آج پوری ہوئی ہے، آپ کے چہرے سے نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا‘‘۔ ان کی گفتگو اور حرکات سے یوں حرکت غیر ہو رہی تھی۔ میں نے اِس کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف مصافحہ کی خاطر ہاتھ بڑھایا اور کہا ’’میں معذرت چاہتا ہوں، آپ پھر کبھی تشریف لائیں‘‘۔ میں کالم لکھ رہا ہوں، ’’بولے‘‘ معافی چاہتا ہوں، بس ایک نظر میری بیاض پر ڈال لیں اور پھر کام جاری رکھیں۔ ماشااللہ، عمدہ شاعری ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی نشست سے اٹھے اور فرمایا، میں بس آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا تھا، وہ ہو گئی، اب اجازت چاہتا ہوں۔ میں نے اپنی نشست سے اٹھ کر انہیں الوداع کیا، وہ دروازے کی طرف گئے اور بولے ’’زیارت کے علاوہ میں ایک کام کے لیے بھی حاضر ہوا تھا، میں اے جی آفس میں کام کرتا ہوں، میرا باس میری اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے مجھ سے بہت حسد کرتا ہے، میں اس کے ساتھ کام نہیں کر سکتا، آپ براہِ کرم مجھے ایف آئی اے یا نیب میں بھرتی کرا دیں‘‘۔
بس اس کے بعد سے میں ہوں، میرا قلم ہے اور میرا دماغ ہے، جو بھاں بھاں بول رہا ہے پھر بھی اپنے اتنے بڑے مداح کا شکریہ جس نے میرے قلم کو لکھنا تو ’’سکھایا‘‘ ورنہ یہ سفید کاغذ آج سفیدہی رہتا!
آخر میں اسلم کولسری کا ایک شعر؛
کھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں
میں کسی کام سے نہیں آیا