پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے طے شدہ 6 فیصد کی حد بھی پار کر جائیگا
مہنگائی کے دباؤ میں ہوشربا اضافے کے باوجود، زرمبادلہ کی شرح تبادلہ میں کمی کے باوجود اور اس ایک سال میں 800 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے کے باوجود سالانہ ٹیکس ہدف کا حصول مشکل نظرآتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو خطرہ ہے کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی ( مجموعی قومی پیداوار) کے طے شدہ 6 فیصدیا اس کم ہونے کی حد بھی روند ڈالے گا۔
ذرائع کے مطابق مئی میں صرف 5 کھرب 70 ارب روپے کی عبوری آمدن اکٹھا کرنے کے بعد 76 کھرب40 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے کےلیے اب ایف بی آر کےسامنے جون میں 14 کھرب46 ارب روپے جمع کرنے کا ایک دیوہیکل ٹاسک موجود ہے
۔30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال کے 76کھرب 40 ارب روپے محصولات جمع کرنے کا نظرثانی میں اضافہ شدہ ہدف حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔
اپریل اور مئی کے گزشتہ دو ماہ کے دوران ایف بی آر کی کارکردگی کو مدنظر رکھاجائے تو جون 2023 تک 70 کھرب کے نشان کو چھونا بھی ایف بی آر کےلیے خاصا مشکل نظر آرہا ہے۔
ایف بی آر اگر آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ہدف 76 کھرب 40 ارب روپے کے محصولات کے ہدف تک پہنچنے کے بجائے صرف 70 کھرب کے نشان تک پہنچنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کےیے اسے جون 2023 میں9 کھرب 60 کروڑ روپے اکٹھا کرنا ہوں گے۔
آمدن اکٹھا کرنے کےلیےایف بی آر کی اس مایوس کن کارکردگی نے بجٹ خسارے (کے ہدف اور حقیقی خسارے میں ) فرق مزید بڑھے گا کیونکہ جب آمدن اکٹھا کرنے کا نظر ثانی شدہ اضافہ شدہ ہدف بھی حاصل نہ ہوپائے گا اور اخراجات بھی بلاروک ٹوک جاری رہیں گے تو مجموعی آمدن اور اخراجات میں فرق تو بڑھے گا اور یوں یہ خسارہ جی ڈی پی کے طے شدہ 6 فیصد کی حد بھی پار کرجائےگا۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو کیسے رام کرتی ہے کہ وہ تعلطل کے شکار فنڈپروگرام کو بحال کرے کیونکہ غالب صورتحال میں آئی ایم ایف کی تشخیص یہ ہے کہ یا تو ٹیکس کی آمدن بڑھائی جائے یا پھر اخراجات کم کیے جائیں تاکہ بجٹ خسارے کے ہدف کو حد میں رکھاجاسکے بالخصوص ابتدائی خسارے کی حد کو طے شدہ حدود کے اندررکھاجاسکے۔
آئی ایم ایف کی تشخیص کے مطابق 170 ارب روپے کے اضافی محصولات عائد کرنے کے بعد جن میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے 18 فیصد تک لے جانے اور بالخصوص اشیائے تعیش پر 25 فیصد تک ڈیوٹی عائد کرنے کے باوجود حکومت 14 فروری 2023 کے منی بجٹ کے آمدن کے اہداف پورے کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
اگرچہ ایف بی آر نے کوئی سرکاری اعدادوشمار تو بدھ کی رات تک جاری نہیں کیے لیکن ایف بی آئی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ادارہ 30 جون 2023 تک طے شدہ 76 کھرب 40 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے میں بہت بڑے شارٹ فال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔