چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت جاری ہے جس کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا۔

13 رکنی فل کورٹ بینچ
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 13 رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا ہے جو مخصوص نشستوں کے بارے میں کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کاز لسٹ کے مطابق فل کورٹ بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

سنی اتحاد کے وکیل کے دلائل جاری
سماعت کے آغاز سے ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل جاری ہیں، کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا اور کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنے کا کہا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے انہیں ہدایت کی کہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجہ نے اسی سے متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، بطور جماعت حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، سنی اتحاد کونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تمام دستاویزات موجود ہیں جو سوالات سے متعلق ہیں؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے پاس تمام سوالات ہیں، سب دستاویزات بھی عدالت میں دکھاؤں گا، اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ بس کہیں کہ الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ، دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی، تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا ہے، آخری جگہ پارٹی لکھا، اس میں کوئی خاص فرق ہے؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین پولیٹکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے، آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے، آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل سنی اتحاد کونسل اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا حریف بننے کے معاملے سے تعلق نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ میں نے آپ کے سوالات سے لفظ پولیٹیکل حذف کر دیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہوئے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہو گی تو پارلیمانی پارٹی ہی ہو گی۔

اس موقع پر سپریم کورٹ میں پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمانی پارٹی کے الفاظ میں فرق پر دلائل دیے گئے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین میں 63 اے کے علاوہ کہیں پارلیمانی پارٹی کا لفظ نہیں دیکھیں گے، آزاد امیدوار وہ ہے جو کسی پارٹی پلیٹ فارم سے انتخابات نہ لڑے۔

تحریکِ انصاف کے امیدوار تو آزاد نہ ہوئے: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو امیدوار ہمارے سامنے نہیں جن کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں وہ تو سب تحریکِ انصاف کے ہیں، تحریکِ انصاف کے امیدوار تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں، آپ کی پارٹی میں نہیں آ رہے، تحریکِ انصاف کے امیدوار تو پھر آزاد نہ ہوئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے امیدوار انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے، الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو کس بنیاد پر انتخابی نشان دیا؟ الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان دیا اور بطور آزاد امیدوار شناخت دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے جنہیں ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے، پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، امیدوار حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر ابھی غیر متعلقہ ہے، مناسب ہو گا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر فوکس کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہو گا، آزاد امیدوار وہی ہو گا جو بیانِ حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذاتِ نامزدگی میں تحریکِ انصاف کا امیدوار ظاہر کیا، کاغذات بطور تحریکِ انصاف کے امیدوار کے منظور ہوئے اور امیدوار منتخب ہو گئے، الیکشن کمیشن کے قوانین کیسے تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو، یہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد کونسل میں تحریکِ انصاف کے کامیاب امیدوار شامل ہوئے، سیاسی جماعت میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہو سکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بن گیا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تحریکّ انصاف یا آزاد امیدواروں نے بیٹ کا انتخابی نشان لینے کی درخواست دی؟ چیلنج کیوں نہیں کیا اگر بیٹ کا نشان نہیں ملا؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کسی کو نشان ملا ہوا ہے تو وہ مخصوص نشان کسی اورکو نہیں مل سکتا۔