معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
حکومت نے عمران خان کو سچا ثابت کر دیا
رانا ثناء اللہ پاکستان مسلم لیگ ن کے باعزت اور معتبر لیڈر ہیں‘ یہ ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں کے پسندیدہ ہیں اور یہ دونوں ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا عمران خان کے حکم پر اینٹی نارکوٹیکس فورس نے یکم جولائی 2019 کو رانا ثناء اللہ پر 15 کلو ہیروئن کا کیس بنایاتھا اور شہریار آفریدی نے قومی اسمبلی میں حلف دیا تھا یہ کیس درست ہے اور میں اس کا ویڈیو ثبوت بھی دوں گا مگر یہ کیس بعدازاں جھوٹا ثابت ہوا اور رانا ثناء اللہ چھ ماہ جیل میں رہ کر ضمانت پر رہا ہو گئے‘ یہ مقدمہ آج بھی چل رہا ہے ‘بے شک یہ سیاسی مقدمہ تھا اور اس میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ زیادتی ہوئی۔
آج رانا ثناء اللہ وفاقی وزیر داخلہ ہیں لیکن کیا رانا ثناء اللہ کو آج وزیر بننے کے بعد اینٹی نارکوٹیکس فورس بند کر دینی چاہیے؟آپ کا جواب یقینا نا ہو گا‘ نیب نے 11 دسمبر 2018 کو خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو پیرا گان ہاؤسنگ اسکیم میں کرپشن پر گرفتار کر لیا‘ ان پر 76 متاثرین کے ساتھ فراڈ کا کیس بنا‘ ہاؤسنگ اسکیم کا ایک اہلکار قیصر امین بٹ خواجہ برادران کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا۔
خواجہ برادران اس کیس میں 15 ماہ جیل میں رہے‘ نیب الزام ثابت نہیں کر سکا اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر نے 20 جولائی 2020 کو خواجہ برادران کے حق میں 87 صفحات کا انتہائی تگڑا فیصلہ جاری کر دیا‘ یہ فیصلہ نیب کے خلاف وائٹ پیپر تھا‘ جج صاحب نے فیصلے میں نیب پر سیاسی جوڑ توڑ‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم کا الزام بھی لگایا‘ ہم احسن اقبال‘ خواجہ آصف‘ شاہد خاقان عباسی‘ سید خورشید شاہ‘ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی مثالیں بھی پیش کر سکتے ہیں‘ یہ لوگ بھی سابق حکومت کے احتساب کا نشانہ بنے اور طویل جیلیں‘ مقدمات اور خواری برداشت کی اور نیب چار چار سال کی انکوائری اور کارروائی کے باوجود اپنی ہی عدالتوں کو مطمئن نہیں کر سکا۔
میاں شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز پر بھی 16 ارب روپے کی کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمات بنائے گئے‘ میاں شہباز شریف دو مرتبہ 11ماہ نیب کی حراست میں رہے جب کہ حمزہ شہباز 20 ماہ جیل میں رہے‘ یہ مقدمات آج بھی چل رہے ہیں‘نیب نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں باقاعدہ سزابھی دلوائی اور نیب نے آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید پر 35ارب روپے کی کرپشن کا الزام بھی لگایا اور یہ کیس بھی ابھی تک عدالتوں میں خوار ہو رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا ان تمام نالائقیوں‘ سیاسی جوڑ توڑ‘ سیاسی انتقام اور ظلم زیادتی کے بعد نیب اور ایف آئی اے کو بند کر دینا چاہیے اور کیا ملک میں احتساب کا کوئی محکمہ نہیں ہونا چاہیے؟ اگر ہاں تو پھر پولیس پوری دنیا میں بدنام ہے۔
عدالتیں بھی بعض اوقات غلط فیصلے کر دیتی ہیں‘ پوری دنیا میں ججز بک بھی جاتے ہیں اور یہ نفرت اور محبت سے متاثر ہو کر بھی فیصلے کرتے ہیں تو کیا پھر پولیس کا محکمہ اور عدالتیں بھی بند کر دینی چاہییں؟ دنیا بھر کی پارلیمنٹس بھی غلط فیصلے کردیتی ہیں‘ہماری پارلیمنٹ نے2003ء میں جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر تسلیم کر لیا تھااور پارلیمنٹ نے جنرل پرویز مشرف کے تمام فیصلوں (ایل ایف او) کو قانونی حیثیت بھی دی تھی تو کیا ہمیں اس کے بعد پارلیمنٹ کو بھی ختم کر دینا چاہیے تھا؟ اگر تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر نیب کیوں؟ کیا نیب کے چند سیاسی جوڑ توڑ یا غلط انکوائریز کے بعد یہ ادارہ بند ہو جانا چاہیے؟ حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
حکومت نے 9 جون کو پارلیمنٹ سے نیب کا ترمیمی بل پاس کرا لیا‘ میں ماضی میں نیب کی کارروائیوںکا ناقد تھا‘ احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس نیب گردی کی خوف ناک ترین مثالیں ہیں‘ ان کے خلاف زیادتی کی وجہ سے بیوروکریسی نے کام کرنا بند کر دیا تھا لہٰذا ہم فیصلوں میں سرکاری تاخیر اور بیوروکریسی کے قلم چھوڑ رویے کی وجہ سے آج معاشی ایمرجنسی کا شکار ہیں۔
حکومت کے پاس نیب کے افسروں کی تنخواہوں کے لیے بھی رقم موجود نہیں لیکن اس کے باوجود نیب قوانین میں حالیہ ترامیم پر میرے بھی تحفظات ہیں اور میں بھی ان ترامیم کو ملک سے ظلم‘ زیادتی اور اختیارات کا کھلم کھلا ناجائز استعمال کہنے پر مجبور ہوں‘ یہ درست ہے چیئرمین نیب کی تقرری کے سسٹم میں خرابی تھی‘ یہ خرابی ختم ہونی چاہیے تھی‘ چیئرمین نیب کے پاس آمرانہ اختیارات بھی تھے۔
یہ اختیارات بھی قانون کے دائرے میں آنے چاہیے تھے‘ انکوائری‘ ریفرنس اور پراسیکیوشن میں بھی خامیاں تھیں‘ یہ خامیاں بھی دور ہونی چاہیے تھیں‘ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا‘ یہ استعمال بھی بند ہونا چاہیے تھا اور نیب حکومتوں کی خدمت کا فریضہ بھی سرانجام دیتا تھا‘ اسے حکومتوں کے اثر سے باہر بھی ہونا چاہیے تھا لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں آپ مریم نواز کو فائدہ پہنچانے کے لیے نیب قانون کے سیکشن 21 کی کلاز جی ہی کو ختم کر دیں اور اس ترمیم کے بعد اب ملک میں دوسرے ممالک سے موصول ہونے والے ثبوتوں کو ثبوت نہیں سمجھا جائے گا‘ آپ اپنے دوستوں‘ بیوروکریٹس اور سیاسی اتحادیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے انکوائری اور سماعت کے دوران مشکوک پراپرٹی کی فروخت کی اجازت ہی دے دیں۔
آپ نیب کو چھ ماہ میں انکوائری اور تفتیش مکمل کرنے کا پابند بھی بنا دیں جب کہ دنیا میں چھ ماہ میں وائیٹ کالر کرائم کی تفتیش ممکن ہی نہیں‘ یورپ اور امریکا بھی دو دو سال لے لیتے ہیں‘ آپ عوام کو لوٹنے کی حد بھی 50 متاثرین سے 100 کر دیں اور اس کا براہ راست فائدہ خواجہ برادران کو ہو جائے‘ آپ وعدہ معاف گواہ کو بھی 5 سال کے لیے سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیں تاکہ مستقبل میں کوئی شخص کسی طاقتور کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بنے‘ آپ انکوائری اور تفتیش رکوانے کے لیے بھی قانون بنا دیں عدالت میں جس افسر کا کیس ثابت نہیں ہو گا اسے پانچ سال قید ہو جائے گی۔
آپ نیب کو وزارت داخلہ کا ماتحت بھی بنا دیں تاکہ یہ بھی پنجاب پولیس بن جائے اور حکومت وقت کی معاونت کرے اور آپ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو فائدہ پہنچانے کے لیے اثاثے کی تعریف بھی بدل دیں اور آج سے اثاثہ صرف اسے سمجھا جائے جو ملزم کے نام پر ہو گا اور خاندان اور عزیزوں رشتے داروں کے ناجائز اثاثوں کو اثاثہ نہیں سمجھا جائے گا چناں چہ کوے بے شک آج سے اپنے انڈے فاختہ کے گھونسلے میں رکھ دیں کوئی ان سے پوچھ نہیں سکے گا۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا یہ ترامیم درست ہیں؟ نیب اس وقت پاکستان کا بڑا سرکاری ادارہ ہے‘ اس کے سات بیوروز ہیں اور اس میں اڑھائی ہزار ملازمین کام کرتے ہیں اور ان پر ماہانہ ارب روپے سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں‘ آپ کو اگر یہ ادارہ سوٹ نہیں کرتا تو آپ اسے سرے سے بند ہی کر دیں‘ ہاتھی کی ٹانگ توڑ کر اسے زمین پر لٹا کر چارہ کھلانے کی کیا ضرورت ہے اور اگر ملک کو احتساب چاہیے۔
ہم نے اس ملک کو کرپشن فری بنانا ہے تو پھر نیب میں اصل ترامیم کریں‘ اسے مکمل طور پر حکومت کے اثر سے بالاتر کر دیں‘ یہ درست ہے انکوائری اور ریفرنس سے پہلے کسی شخص کو گرفتار نہیں ہونا چاہیے‘ چیئرمین کے پاس کسی بھی شخص کو 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار بھی نہیں ہونا چاہیے اور ادارہ اگر عدالت میں اپنا کیس ثابت نہ کر سکے تو اسے جرمانہ بھی ہونا چاہیے لیکن یہ جرمانہ ادارے کو ہونا چاہیے۔
تفتیشی افسر کو نہیں تاہم اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں آپ جوئیں مارنے کے لیے بالوں کو آگ لگا دیں یا چوہے نکالنے کے لیے پورا گھر ہی جلا دیں اور آپ نے یہ کر دیا‘ آپ نے اپنی غلطی سے عمران خان کو بھی سچا ثابت کر دیا‘ یہ آٹھ سال سے کہہ رہے تھے یہ لوگ این آر او لینا چاہتے ہیں اور آپ کے ایک فیصلے نے یہ ثابت کر دیا یہ شخص ٹھیک کہہ رہا تھا‘ عمران خان تین ماہ سے یہ بھی کہہ رہا تھا یہ لوگ اپنے مقدمے بند کرانے کے لیے اقتدار میں آئے‘ آپ نے یہ ترامیم کر کے اسے اس ایشو پر بھی سچا ثابت کر دیا‘ آپ نے نیوٹرل کو بھی نیوٹرل ہونے کی سزا دے دی۔
یہ بھی آج سوچ رہے ہوں گے ہم نے نیوٹرل ہو کر غلطی کر دی‘ حکومت صرف اپنا سیاسی اور مالی فائدہ دیکھ رہی ہے اور آپ نے عدلیہ کو بھی دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا‘ مجھے محسوس ہوتا ہے سپریم کورٹ ان ترامیم کو منسوخ کر کے انھیں واپس پارلیمنٹ میں بھجوا دے گی اور یہ فیصلہ اس کم زور حکومت کے لیے بڑا کیل ثابت ہو گا اور حکومت نے عوام کوبھی یہ پیغام دے دیا حکومت کے پاس ڈالر‘ مہنگائی اور پٹرول کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے وقت نہیں‘ یہ معیشت پر بھی بڑے فیصلے نہیں کر پا رہی لیکن اس کے پاس اپنے کیس معاف کرانے کے لیے بے تحاشا وقت ہے اور یہ لوگ اس کام کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔
لہٰذا میں سمجھتا ہوں پاکستان مسلم لیگ ن نے عمران خان کی بنائی چٹان کے نیچے سر دے کر اتنی بڑی غلطی نہیں کی تھی جتنی بڑی غلطی نیب قانون میں ترامیم کر کے کی‘ یہ فیصلہ ان کی جڑوں میں بیٹھ جائے گا اور جب سپریم کورٹ اسے منسوخ کرے گی تو عمران خان کی دم توڑتی ہوئی ساکھ کو ایک بار پھر سہارا مل جائے گا‘ یہ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لہٰذا حکومت فیصلہ کرے اس نے کس کو سیاسی فائدہ پہنچایا‘ عمران خان کو یا اپنے آپ کو۔