معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
’’صادق‘‘ و ”امین“ سے آئین شکنی تک کا سفر
یہ کسی عمران مخالف سیاستدان کی رائے نہیں۔ یہ کسی اینکر یا تجزیہ کار کا تجزیہ نہیں۔ یہ کسی ایک جج کی رائے نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے ،اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے رجیم چینج کی تھیوری جھوٹ ہے ۔ گویا ثاقب نثار کی طرف سے ’’صادق‘‘ و ”امین‘‘ ڈیکلئیر کئے جانے والے عمران خان کے بارے میں سپریم کورٹ کی یہ متفقہ رائے آگئی ہے کہ اس حوالے سے عمران خان اور ان کے ساتھی جھوٹ بول رہے ہیں میں تذکرہ کررہا ہوں عدم اعتمادکے عمل اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سوموٹو کیس کے تفصیلی فیصلے کا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کے اضافی نوٹ کا بھی ذکر نہیں کررہا ۔ آپ تو دو قدم آگے گئے ہیں۔ یہاں میں صرف اور صرف چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ 87صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے صفحہ 4پر لکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہورہا تھا یا پھر دیگر الفاظ میں جس طرح آئین کے خلاف اقدام ہورہے تھے تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بارہ ججز کی چیف جسٹس آف پاکستان کے گھر مشاورت کے بعد اس معاملے کا سوموٹو ایکشن لیا گیا۔فیصلے کے صفحہ 8پر لکھا گیا ہے کہ 8مارچ 2022کو اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کی اور اسی دن اجلاس کی ریکوزیشن بھی دی گئی۔ یوں آئین کی رو سے 22 مارچ کو اجلاس ضروری تھا لیکن ا سپیکر نے مذکورہ تاریخ کی بجائے 25مارچ کو اجلاس بلایا (گویا آئین کی خلاف ورزی ہوئی) ۔ صفحہ 9پر لکھا گیا ہے کہ 25مارچ کو اجلاس بلا کر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کئے بغیر اسے 28مارچ تک ملتوی کیا گیا۔فیصلے میں معزز ججز نے مزید لکھا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر نے خفیہ مراسلہ تین ہفتے قبل یعنی 7 مارچ کو بھیجا تھا لیکن27 مارچ کے جلسے تک وزیراعظم عمران خان یا کسی اور نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا ۔ پہلی مرتبہ انہوں نے 27 مارچ کو ایک جلسے میں اس کا ذکر کیا۔ میں یا کوئی اور نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ 28مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس میں کسی حکومتی رکن نے سفیر کے خفیہ مراسلے کا ذکر نہیں کیا۔ 31مارچ کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر بحث ہوئی لیکن اس اجلاس میں بھی کسی حکومتی رکن نے کسی امریکی سازش یا خفیہ مراسلے کا کوئی ذکر نہیں کیا اور رائے شماری کی بجائے اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ 31 مارچ کو کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔ اسی طرح اسی دن پارلیمنٹ ہاؤس کی کمیٹی روم نمبر2 میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اپوزیشن ممبران نے شرکت نہیں کی کیونکہ انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے فوراً بعد مختصر نوٹس پر بلایا گیا تھا۔ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی (جس کی صدارت عمران خان نے کی) ، کو خفیہ مراسلے کے بارے میں بریف کیا گیا لیکن کمیٹی نے (امریکی سازش کے مفروضے) کے بارے میں کوئی ٹھوس اقدام تجویز نہیں کیا اور صرف غیرپارلیمانی زبان کے استعمال پر احتجاج ریکارڈ کرانے پر اکتفا کیا گیا ۔فیصلے کے صفحہ ب12 پر لکھا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی سازش (کے مفروضے) کے بارے میں سخت اقدامات اسلئے تجویز نہیں کئے کیونکہ امریکی سازش کی تھیوری کے لئے ٹھوس مواد موجود نہیں تھا۔ اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ان ممبران اسمبلی (جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی) میں سے کسی کا نام بھی سامنے نہ لاسکی، جن کا امریکیوں سے کوئی رابطہ تھا۔ فیصلے کے متن کے مطابق 13پریل 2022کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے حکمنامے کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پر رائے شماری کیلئے طلب کیا گیا تھا جو ایجنڈے کا آئٹم نمبر 4تھا لیکن ووٹنگ کی بجائے ڈپٹی سپیکر نے وزیر قانون فواد چودھری کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت دی حالانکہ آئٹم نمبر 2اور 13بھی
نہیں نمٹائے گئے تھے ۔ وزیرقانون نے پہلی مرتبہ اسمبلی کے فلور پر غیرملکی حکومت کی طرف سے حکومت کی تبدیلی یا رجیم چینج کا ایشو اٹھایا۔ وزیرقانون کے پوائنٹ آف آرڈر کا لب لباب یہ تھا کہ چونکہ عدم اعتماد کی تحریک غیرملکی حکومت کے ایما پر لائی گئی ہے اور تحریک لانے والے آئین کے آرٹیکل 5 (ریاست کے ساتھ وفاداری اور آئین و قانون کا احترام) کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس لئے سپیکر اس پر رولنگ دے کہ تحریک کے محرکین آرٹیکل 5کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں؟۔ جونہی وزیرقانون نے گفتگو ختم کی تو ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن یا محرکین کو وزیرقانون کے الزام کا جواب دینے کا کوئی موقع نہیں دیا اور رولنگ دی کہ ”وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک8مارچ 2022 کو پیش کی تھی۔ عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کسی غیرملکی طاقت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کے عوام کی منتخب کردہ حکومت کو گرائے ۔ وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں۔ ویلڈ ہیں۔ لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین اور قومی خود مختاری و آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف ہے۔ میں یہ قرارداد مسترد اور ڈس الاو کرنے کی رولنگ دیتا ہوں“۔ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے صفحہ16پر مزید لکھا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی اس رولنگ کی وجہ سے وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا جسے استعمال کر کے انہوں نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی، جسے صدر نے منظور کرتے ہوئےاسمبلی تحلیل کر دی۔ وزیراعظم اور صدر کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک دو ریاستی اداروں یعنی مقننہ اور انتظامیہ سے محروم ہو گیا۔ جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے ان غیرمعمولی حالات میں سپریم کورٹ کو حرکت میں آنا پڑا۔ صفحہ17پر لکھا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے عدم اعتماد کے حوالے بادی النظر میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ صفحہ 19پر مزید لکھا گیا ہے کہ سپیکر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بھی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کیااور یہ بھی کہا کہ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 161ممبران کو چھٹی دی گئی کیونکہ رولز کے مطابق اسمبلی ممبران کی اکثریت جو ۱72بنتی ہے، ہی ممبران کی چھٹی کی درخواست منظور کرسکتے ہیں۔ (جاری ہے)