معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
دی لیجنڈ آف مولا جٹ
1979 میں ریلیز ہونے والا مولا جٹ کے بارے میں بہت سن رکھا تھا کہ اس فلم نے پاکستان میں بڑے بڑے ریکارڈ قائم کئے اور ریکارڈ توڑے بھی، لیکن کبھی یہ فلم دیکھنے میں دلچسپی پیدا نہیںدانش احمد انصاری ہوئی۔ اب جبکہ “دی لیجنڈ آف مولاجٹ”سینما گھروں کی زینت بننے والی تھی تو ایسے میں بطور فلم ناقد کے میں نے سوچا کہ پہلے مولا جٹ دیکھ لی جائے، تاکہ دونوں فلموں کا موازنہ بھی کیا جا سکے اور دیکھا جا سکے کہ کہاں دونوں فلموں میں لوپ ہولز موجود ہیں اور کہاں زیادہ بہتر کام کیا گیا ہے۔ چنانچہ مولا جٹ میں نے ستمبر کے شروع میں ہی دیکھ لی۔ فلم میں درجنوں خامیاں نظر آئیں، جیسے پوری فلم میں کیمرہ مین کیمرے کو ایسے ہلا رہا ہے، جیسے گھوڑے پر سوار ہو کر فلم شوٹ کی جارہی ہو۔ اسی طرح ایکشن مناظر وہی روایتی تھے، شاید اس زمانے میں محدود وسائل میں ایسا ہی کچھ تیار کیا جانا ممکن ہو، البتہ فلم کے مکالمے بہت دلچسپ تھے، جو آج بھی اکثر لوگ دھراتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح فلم میں پنجاب کے کلچر کو بھرپور طریقے سے دکھانے کی شعوری کوشش کی گئی تھی، میں “شعوری”کیوں کہا یہ یہ آگے جا کر بتاتا ہوں۔
اب آتے ہیں نئی ریلیز ہونے والی فلم “دی لیجنڈ آف مولا جٹ”کی طرف ۔بھیا! سب سے پہلے تو میں اس فلم کی تمام کاسٹ اور خصوصی طور پر بلال لاشاری کو سلام پیش کرتا ہوں، مجھے یہ دیکھ کر بیک وقت حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ پاکستان میں اس قدر اعلی پائے کی فلم بنائی گئی ہے۔ یعنی فلم کی سینماٹو گرافی سے لے کر ڈائیلاگز تک اور کاسٹیوم سے لے کر وی ایف ایکس اور سیٹ تک، ہر چیز لاجواب ہیں، براوو۔۔۔ اگر یہ فلم انڈیا میں ریلیز ہوتی تو شاید بڑے ریکارڈ توڑتی۔ یہ میرے جذبات ہیں، ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی کہانی اگرچہ پہلی والی فلم سے کچھ مختلف ہے، لیکن یہ فلم پریڈکٹ ایبل Predictableتھی، یعنی ناظرین اندازہ لگا سکتے تھے کہ اب اگلے سین میں کیا ہونے والا ہے، یوں سسپنس والا احساس صرف چند مناظر تک ہی محدود رہا۔ فلم دیکھنے کے بعد پہلا تاثر جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ اس کہانی پر ایک مکمل سیزن عکس بند کیا جا سکتا ہے اور یقینی طور پر اگر اس فلم کو کم سے کم وقت میں بھی کٹ کیا جائے تو یہ3گھنٹے کی بنتی ہے، لیکن 2گھنٹے اور20منٹ تک محدود رکھنے کی وجہ سے کئی ایسے مناظر مس کر دیے گئے، جو میرے ذہن میں تھے کہ اب یہ ہونا والا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر ایسے ایکشن مناظر تھے، جن کے بارے میں ، میں سوچ رہا تھا کہ اب اگلے منظر میں سنسنی خیز میوزک کے ساتھ ہیرو کھیتوں میں سے دوڑتا ہوا اپنی منزل کی جانب جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ ہیرو ایک جگہ سے دوڑنا شروع ہوا اور اگلے ہی لمحے یا اگلے ہی منظر میں وہ اپنی منزل تک پہنچ گیا، میں سمجھ سکتا ہوں کہ محدود وقت کی وجہ سے بہت سے مناظر کٹ کرنے پڑگئے۔ تاہم فلم کی کہانی ، وی ایف ایکس، مکالموں، اداکاری ، حتی کہ کہیں بھی مجھے جھول نظر نہیں آیا۔ ہر کردار کے ساتھ انصاف کیا گیا اور ہر کردار کو سکرین پر آنے کا مناسب وقت دیا گیا۔
ایکٹنگ کی بات کروں تو سب سے لاجواب اداکاری میری رائے میں حمائمہ ملک اور گوہر رشید نے کی ہے۔۔۔ او ہو ہو ہو۔۔۔۔ کمال است۔ میں نے کبھی حمائمہ کو بڑی سکرین پر نہیں دیکھا ۔۔۔ حمائمہ نے اچھی پنجابی بولی ۔ میں بذات خود روزمرہ زندگی میں پنجابی نہیں بولتا، لیکن مجھے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کس لہجے یا کس روانگی سے بول رہا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات حمائمہ کمال ہے آپ کی اداکاری ، خاص طور پر سنسر شپ سے بیچ بچاؤ کر کے حمائمہ سے جو پول والا سین کروایا گیا ہے، یہ سین شاید حمائمہ ہی اس بہترین انداز میں ادا کار سکتی تھیں۔
گوہر نے چند ڈائیلاگ ایسے بولے کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ سائیکو کردار، جو کہ میرے نزدیک اداکاری کی دنیا میں ایک مشکل کردار سمجھا جاتا ہے گوہر نے بڑی مہارت سے نبھایا ہے، خوب است ۔۔۔۔ فواد نے اچھی اداکاری کی، مکالمے بھی بھرپور ادا کیے، لیکن کوئی آؤٹ آف دی باکس پرفارمنس نہیں تھی، جس پر ان کی بہت زیادہ تعریف کی جائے، ہاں اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا ۔۔۔ حمزہ علی عباسی نے جو کر دکھایا ہے، میں تو فین ہو گیا ہوں بھائی! ، ان کی آواز میں وہ جادو نظر آیا، جس کے بغیر شاید یہ فلم مکمل نہ ہو پاتی، بھاری بھرکم، رعب اور دبدبے والی خوفناک آواز اور زبردست اداکاری۔
آخر میں چند لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینا چاہوں گا اور اوپر ریویو کے شروع میں جو “شعوری”والی بات کی اس کے حوالے سے بھی بتا دوں کہ فلم میں پنجابی کلچر کو نہیں بلکہ شعوری طور پر کچھ اور ہی دکھایا گیا ہے۔ آپ بس ایک کام کریں کہ بلال لاشاری کا بی بی سی کو دیا گیا انٹرویو سن لیں، انہوں نے صاف بتا دیا ہے کہ فلم کی کہانی زماں اور مکاں سے پرے ہے، یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ فلم کی کہانی کس زمانے کی عکاسی کر رہی ہے۔ یعنی یہ کہانی آپ کو ایک ایسی فکشنل دنیا میں لے جاتی ہے، جس میں پنجابی کلچر کی رمق بھی ہے اور فکشن کے لوازمات بھی۔ اسے آپ گیم آف تھرونز کی جادوئی دنیا کی طرح کا فکشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی پنجاب میں آپ کہیں بھی ایسے اکھاڑے یا موت کے کنوے نہیں دیکھیں گے، جس میں گنڈاسے اور تلواروں سے لڑائی ہوتی ہو، یا ماضی میں ایسا کیا جاتا ہو، بلکہ اسے بھی فکشنلی ہدایتکار بلال نے اپنی طرف سے ایڈ کیا ہے تاکہ فلم میں دلچسپی کا سامان پیدا ہو سکے۔ فلم میں گانا کوئی نہیں اور شاید اتنی سیریس فلم میں بنتا بھی نہیں تھا۔ میرے رائے میں اگر گانا ایڈ ہو جاتا تو پھر بھی ٹھیک تھا، لیکن ایک فلو میں کہانی چل رہی تھی، گانے نے اس فلو کو خراب کر دینا تھا۔
بہرحال میری طرف سے فلم کو 10میں سے 9 نمبر۔ کمال است، کمال است، کمال است۔۔
رائٹر: دانش احمد انصاری