معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سیاسی سوداگر کا نیا سودا…(2)
زرداری صاحب کو علم تھا کہ نواز شریف کی چند کمزوریاں ہیں‘ بلکہ یوں کہہ لیں کوئی خوف تھا جسے وہ استعمال میں لا کر اپنا کام کراسکتے تھے۔ زرداری صاحب سے بہتر یہ بات کون جان سکتا تھا کہ کسی سے کام کرانے کے چند طریقے ہوتے ہیں۔ یا تو اس بندے کے گھر جا کر میز پر بریف کیس رکھ دیں اور پستول بھی کہ اب اس بندے کی مرضی وہ کیا لینا چاہتا ہے۔ دوسرا طریقہ ہے اسے سمجھایا جائے کہ اس میں کس چیز میں فائدہ نقصان ہے۔ عمومی طور پر لوگ اپنے فائدے کی بات کو زیادہ توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی انسان کو قائل کرنا ہوتو اسے اس کام یا چیز میں فائدہ سمجھائیں مگر اسے یہ نہ لگے کہ آپ دراصل اس کے ذریعے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ چالاک اور سمجھدار لوگ ہمیشہ دوسروں کوان کا فائدہ سمجھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ زرداری صاحب اس فن میں طاق ہیں۔انہیں علم تھا کہ نواز شریف ہوں یا مریم نواز یا پوری مسلم لیگ (ن)‘ یہ سب نومبر میں ہونے والی اعلیٰ تعیناتی سے خوفزدہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہے تو وہ اپنے پسندیدہ افسر کو اس اہم عہدے پر تعینات کریں گے اور 2023ء کا الیکشن بھی وہ جیت جائیں گے اور 2028ء تک حکومت کریں گے‘ جبکہ نواز شریف لندن رہیں گے تو شہباز شریف‘حمزہ اور دیگر پارٹی رہنما جیل میں اگلے پانچ سال گزاریں گے۔اگر اس بات میں کوئی شک تھا تو وہ اس وقت دور ہوگیا جب پی ٹی آئی کے ہر دوسرے وزیر نے ٹی وی ٹاک شوز میں کہنا شروع کر دیا کہ ان کی حکومت 2028ء تک رہے گی۔ اس طرح کے بیانات نے نہ صرف نواز شریف کیمپ کو ڈرا دیا بلکہ ریاستی اداروں کے اندر بھی اس پر پریشانی شروع ہوئی کہ لگتا ہے عمران خان بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں جس پر کبھی نواز شریف چلے تھے۔ یہ بھی خطرہ تھاکہ اس پورے چکر میں سینئرافسران کی حق تلفی ہوسکتی ہے اور عمران خان بھی بھٹو کی طرح کسی جونیئر افسر کو اوپر لاکر تعینات کر سکتے ہیں اور باقی سینئر افسران کو ریٹائر ہونا پڑے گا۔
اس طرح یہ وہ موقع تھا جس پر آصف زرداری‘ مولانا فضل الرحمن‘ نواز شریف اور طاقتور حلقے متفق تھے کہ نومبر 2022ء میں وزیراعظم عمران خان کے بجائے کسی قابلِ اعتماد بندے کو ہونا چاہئے۔ یہ وہ ڈر تھا جو ان سب کو قریب لایا اور سب کے مفادات اکٹھے ہوئے‘ یوں وہ سلسلہ شروع ہوا جو عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ سے چھٹی کا سبب بنا۔ باقی سب کہانیاں ہیں کہ امریکہ نے رجیم چینج کرایا یا کوئی عالمی سازش تھی۔ یہ خود عمران خان کے اپنے اقدامات تھے جنہوں نے سیاستدانوں اور غیر سیاسی طاقتوں کو اکٹھا کر دیا۔زرداری صاحب نے یہی بات نواز شریف کو سمجھائی کہ ان کے نزدیک زیادہ خطرناک کون ہے؟کیا وہ اہم تقرری کے معاملے میں مستقل ایسی پوزیشن رکھنا چاہتے ہیں جس کا فائدہ عمران خان کو ہو اور وہ اسلام آباد بیٹھ کر پوری مسلم لیگ کو جیلوں میں ڈال کر خود پانچ سال حکومت کریں اور آپ جلاوطنی بھگتیں ؟ یا سب اکٹھے ہو کر عمران خان کو ہٹائیں کیونکہ اس وقت ان سب کے لیے بڑا تھریٹ عمران خان تھے۔
نواز شریف کے بارے مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ جس کے خلاف دل میں کینہ پال لیں پھر وہ اتنی آسانی سے نہیں جاتا۔ وہ ہمیشہ کے لیے دل میں گانٹھ دے کر رکھتے ہیں اور موقع ملنے پر اپنا بدلہ چکاتے ہیں۔ نواز شریف مقتدرہ سے شدید ہرٹ تھے کہ وہ سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے اور بیٹی سمیت جیل جا بیٹھے۔ نواز شریف کو یہی شکایت تھی کہ انہیں بچانے کی کوشش نہیں کی گئی‘ جیسے آج عمران خان کو شکایت ہے کہ جب ان کے خلاف اپوزیشن جماعتیں زرداری صاحب کی قیادت میں ان کے اقتدار پر حملہ آور ہوئیں تو مقتدرہ کی طرف سے کوئی مدد نہیں کی گئی اور یوں رجیم تبدیل ہوگیا۔ یوں نواز شریف اور عمران خان میں ایک بات تو مشترک ہے کہ دونوں کے ہاتھوں سے اقتدار نکلا اور وہ دونوں کی شکایات بھی ایک جیسی ہیں کہ جب وہ مشکل میں تھے تو ان کی مدد نہ کی گئی اور دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تئیں پوری کوشش کی‘ اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا‘ مدت میں توسیع دی۔ نواز شریف تو سرعام دو تین نام لے کر تنقید بھی کرتے تھے کہ ان کو جیل تک پہنچانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن میں بھی الزام لگایا تھا کہ کیسے ایک طاقتور ادارے کے سربراہ ایک سرونگ جج کے گھر گئے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو نیب سے ملنے والی سزا برقرار رکھی جائے۔ یہ بات بعد میں نواز شریف نے اپنی تقریروں میں بھی کئی دفعہ دہرائی۔
زرداری صاحب نے یہی بات نواز شریف کو سمجھائی کہ جو سرونگ افسر جج کے گھر گیا تھاتاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی سزا ہائیکورٹ ختم نہ کرے‘ اگر اسے ہی عمران خان اعلیٰ ترین ذمہ داریاں سونپ دیں تو انہیں کیسا محسوس ہو گا؟ زرداری صاحب نے یہ بات بھی انہیں سمجھائی کہ جس سے انہیں اس وقت شکوے ہیں اور جس کے خلاف وہ تقریریں کرتے ہیں وہ تو اگلے چند مہینوں میں رخصت ہو جائے گا۔ نواز شریف کو اب مستقبل کی فکر کرنی چائیے کہ نئی تعیناتی کے بعد وہ کہاں ہوں گے؟ ذرا تصور کریں کہ مرضی کی تعیناتیاں کرنے کے بعد عمران خان اور ان کے وزیر کیسے یہ بڑھک نہ ماریں کہ وہ 2028 ء تک حکومت کریں گے؟ عمران خان کا سارا دارومدار ہی ان تعیناتیوںپر ہے۔یوں نواز شریف کو زرداری نے آپشن دیا کہ وہ ماضی میں پھنس کر عمران خان کے ہاتھوں مزید پانچ سال کیلئے خوار ہونا چاہتے ہیں یا جو کچھ ماضی میں ہوا اسے بھول کر ساری توجہ عمران خان پر رکھنا چاہتے ہیں؟
زرداری صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف کو ماضی میں پھنسے رہنے کے بجائے مستقبل کا سوچنا چاہیے۔ ایک سیاستدان پالیٹکس اقتدار کے لیے کرتا ہے‘ اگر عمران خان کی جگہ شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کا موقع مل رہا ہے تو شریفوں کو اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے اور فوراً اس پیشکش کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس وقت نواز شریف کی ترجیح عمران خان کو ہٹانا ہونی چاہیے ورنہ ماضی کے بدلے لیتے لیتے وہ خود بھی نقصان اٹھائیں گے۔اس وقت اہم بات نومبر کا مہینہ گزارانا تھا اور کسی قیمت پر اپوزیشن قیادت افورڈ نہیں کرسکتی تھی کہ عمران خان تب تک وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر اہم تعیناتی کریں۔ طاقتور حلقے بھی ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے وقت دیکھ چکے تھے کہ عمران خان اپنا فائدہ دیکھ کر تعیناتی کرتے ہیں اور اداروں کی بات کو وزن نہیں دیا جاتا۔ یوں نواز شریف کو قائل کرنے میں زرداری صاحب کا بڑا رول تھا کہ اس وقت اگر انہوں نے موقع ضائع کر دیا تو پورا شریف خاندان سیاسی طور پر آئوٹ ہو جائے گا۔ نواز شریف اور مریم نواز پہلے نااہل ہوچکے ہیں‘ اب باری شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ہے جن کے خلاف ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کا بڑا مقدمہ تیار کر کے عدالت میں پیش کر دیا ہے۔ وہ ایسا مقدمہ ہے کہ یقینی سزا ہوگی۔ انہیں نااہل کرا کے پھر الیکشن ہوں گے۔ 2023 ء میں بھی وہی کچھ ہوگا جو2018 ء میں ہوا تھا جب نواز شریف اور مریم نواز نااہل تھے اور دونوں الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے۔ 2023ء میں نواز شریف اورمریم نواز کے علاوہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی نااہل ہوں گے اور سارا میدان عمران خان کے لیے خالی ہوگا۔شہباز شریف اور حمزہ جیل میں جبکہ نواز شریف باقی کی زندگی لندن میں گزاریں گے۔ زرداری صاحب نے سب کچھ کھل کر بتادیا کہ میاں صاحب۔ اگّوں تہاڈی مرضی! اب کیا کرنا ہے‘ فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں تھا۔