مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
عادت کی طاقت
آپ نے اپنی زندگی میں متعدد مواقعوں پر ایک بات ضرور نوٹ کی ہو گی کہ جب بھی آپ اپنے آپ کو یا اپنی کسی بری عادت کو بدلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس ارادے کو کرنے کے چند گھنٹوں، چند دنوں یا چند ہفتوں بعد آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ آپ اپنے آپ کو بدلنا تو درکنار اپنے ارادے پر بھی قائم نہیں رہ پاتے ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ نے خود سے کئی مرتبہ یہ سوال کیا ہو کہ بھئی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم جلدی ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ اگر آپ خود سے اپنے اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر پائے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کی ناکامی کی بڑی وجہ کیا ہے۔ دراصل آپ اپنا گول کچھ ایسا سیٹ کر لیتے ہیں، جسے حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔۔۔ زیادہ تر لوگ بڑے گول سیٹ کرتے ہیں، وہ بس اپنی زندگی میں ایک انقلاب چاہتے ہیں، جس سے راتوں رات سب بدل جائے، لیکن زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو فطری طور پر انسانی ذہن ایسے کام نہیں کرتا۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں اگر آپ ہر روز اپنی کسی صلاحیت یا صلاحیتوں کو 1فیصد بہتر کرتے ہیں، تو ایک سال بعدآپ 38فیصد بہتر ہو جائیں گے اور اگر آپ روزانہ 1فیصد اپنی کارکردگی یا اپنی صلاحیت کو کم کرتے ہیں تو 365دنوں کے بعد آپ اپنی اصل قابلیت کا 0.03فیصد رہ جائیں گے۔
دراصل انسان کو خدا نے فطری طور پر کچھ اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ انسان کی زندگی چھوٹے چھوٹے اقدامات سے تبدیل یا بہتر ہو تی ہے نہ کہ کسی ایک بڑے ایکشن یا انقلابی اقدام سے۔اسی لیے ڈنمارک کے معروف صحافی جیکاب رائز کہتے ہیں کہ جب بھی میں پریشان ہوتا ہوں تو میں پتھر تراشنے والے ایک شخص کا تصویر اپنے ذہن میں لے آتا ہوں، جو کئی گھنٹوں سے ایک پتھر کو ہتھوری اور چھینی کے ذریعے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن پتھر ٹس سے مس نہیں ہو رہا ، لیکن 300مرتبہ پتھر پر چوٹ لگانے کے بعد آخر 301ویں مرتبہ پتھر ٹو ٹ جاتا ہے۔ جیکاف کہتے ہیں کہ پتھر تراشنے والے شخص کو یہ کامیابی اس کوشش کے نتیجے میں نہیں ملی جو اس نے آخری مرتبہ کی، بلکہ یہ کامیابی اسے گزشتہ تین سو مرتبہ پتھر پر ہتھوڑی کے ذریعے چوٹ لگانے کی وجہ سے ملی ہے۔ یعنی اس پتھر کا ٹوٹنا ایک مجموعی نتیجہcombine resultہے۔ ہماری زندگی بھی اسی اصول پر کام کرتی ہے، لیکن ہم جب بھی کوئی ارادہ کرتے ہیں جیسا کہ اگر کوئی شخص اپنا وزن کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے ذہین میں سب سے پہلی چیز یہ آتی ہے کہ میں برگر کی جگہ سالاد کیوں کھاؤ؟ کافی دنوں سے سلاد کھانے کے باوجود میرا وزن کم نہیں ہو رہا اور اسی سوچ کی وجہ سے مذکورہ شخص اس چھوٹی سی مثبت عادت کو اپنا نہیں پاتا۔ بے شک باہر سے دیکھ کر ہمیں لگ رہا ہوں کہ ہمارے وزن میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی، لیکن یہ چھوٹی سی عادت جسم کے اندر اپنا جادوئی کام کر رہے ہوتی ہے۔
اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں، فرض کریں ایک کمرے میں چھوٹا سا برف کا ٹکرا پڑا ہوا ہے اور کمرے کا درجہ حرارت -4 سینٹی گریڈ ہے، اب آہستہ آہستہ کمرے کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے، -3پر برف نہیں پگھلتی، -2اور -1 پر بھی برف پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی کمرے کا درجہ حرارت 0ہوتا ہے تو برف پگھلنا شروع ہوتی ہے اور چند ہی منٹس میں پگھل کر پانی بن جاتی ہے۔ یعنی کمرے کا درجہ حرارت -1سے 0ہونے پر برف پگھل گئی، ہماری زندگی میں بھی ایک چھوٹی سی تبدیلی بہت فرق لا سکتی ہے، لیکن ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مجموعی نتیجہ کیسے کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے اپنا ایک گول سیٹ کیا کہ آپ کا کمرہ گندگی سے اٹا ہے اور آپ نے اسے صاف کرنا ہے، چند گھنٹوں کی محنت کے بعد آپ اپنا کمرہ صاف کر لیتے ہیں، لیکن اگر آپ نے اپنے کمرے کو روزانہ کی بنیادوں پر صاف رکھنے کی عادت نہیں اپنا رکھی تو کمرہ پھر 2یا 3دنوں کے بعد گندہ ہو جائے گا۔یعنی اگر آپ کو کوئی عارضی نہیں بلکہ مستقل حل چاہیے تو آپ کو اپنی عادت کو بدلنا پڑے گا آپ کو روزانہ کی بنیادوں پر کمرے کی دیکھ بھال کرنی پڑے گی، چیزوں کو ان کی معین جگہوں پر رکھنا پڑے گا ۔
ایک بات ہمیشہ یا رکھیں کہ آپ کے اردگرد کا ماحول آپ کو دی جانے والی موٹیویشن سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اردگر د کا ماحول یا اردگرد موجود لوگ ہم پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے بالکل الٹ ہے، اگر آپ اچھے ماحول میں رہیں گے تو اس کا آپ پر مثبت اثر بھی ہو گا ، اس حوالے سے بوسٹن سے تعلق رکھنے والی ایک معروف امریکی ڈاکٹر اینی تھرونڈک کی مثال دی جا سکتی ہے، جنہوں نے اپنے ہسپتال میں اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ہسپتال آنے والےصحت مند لوگوں کے علاوہ مریض بھی وہاں موجود وینڈنگ مشین اور کیفے ٹیریا سے کوک اور دیگر مشروبات خرید کر پیتے ہیں، انہوں نے ایک تجربے کے طور پر وینڈنگ مشین اور کیفے ٹیریامیں پانی کی بوتلیں بھی رکھوا دیں، جس کے ایک ہفتے بعد جب انہوں نے کیفے ٹیریا کی کمائی کا آڈٹ کیا تو وہ نتائج دیکھ کر دنگ رہ گئیں، انہوں نے دیکھا کہ کوک کی بوتل کی سیل 60فیصد تک کم ہو گئی ہے، جبکہ پانی کی بوتلوں کی سیل میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر اینی اپنے اس مشاہدے سے اس لیے بھی خوش ہوئیں کیونکہ انہوں نے اشتہار کے ذریعے یا کسی مہم کے ذریعے لوگوں کو اس بات کی تحریک نہیں دی تھی کہ وہ کولا مشروبات کی جگہ پانی کااستعمال کریں بلکہ انہوں نے مشروبات کے ساتھ پانی کی بوتلیں بھی رکھ دیں، جس سے مثبت نتائج ملے۔ اس سے ہمیں انسانی رویے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انسان میں بہتری صرف اس کے اندر چل رہی مثبت سوچوں کی وجہ سے نہیں آتی بلکہ اردگرد موجود اچھا ماحول بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔
انسانی رویے کی اسی خاصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یوٹیلیٹی سٹور پر مہنگے پروڈکٹس ایسی جگہ پر رکھے جاتے ہیں، جہاں لوگ انہیں آسانی سے دیکھ سکیں اور آسانی سے اٹھا سکیں۔ اس حوالے سے 1970 میں ڈچ ریسرچرز نے ایک تحقیق کی جس میں ایمسٹرڈم کے ایک مخصوص علاقے کے رہائشیوں کی عادات کا مشاہدہ کیا گیا، یہ وہ لوگ تھے جو باقی علاقے کی نسبت 40 فیصد کم بجلی استعمال کر رہے تھے۔ ریسرچر حیران تھے کہ ایسا کیونکر ہے، حالانکہ ان لوگوں کے پاس بھی بجلی کے وہی آلات تھے ، جوکہ باقی علاقوں کے لوگ استعمال کر رہے تھے، انہوں نے تمام گھروں کا مشاہدہ کیا تو یہ بات سامنے آ ئی کہ جن لوگوں کے گھر میں بجلی کا میٹر بیسمنٹ میں لگا تھا، وہ بجلی 40فیصد زیادہ اور جن لوگوں کے گھروں میں میٹر گھر کے باہر مین گیٹ کے قریب لگا تھا، وہ بجلی 40فیصد کم استعمال کر رہے تھے۔
دراصل بجلی کا میٹر گھر کے باہر لگا ہونے کا یہ فائدہ ہو رہا تھا کہ ان گھروں کے رہائشی اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ بجلی کا استعمال کس وقت میں کتنا ہو رہا ہے اور کہاں کہاں بجلی کے آلات غیر ضروری استعمال ہو رہے ہیں۔ اسی لیے اگر ہم بھی ایسی کوئی مثبت عادت اپنانا چاہتے ہیں تو ہم اپنے ماحول کو اپنے مطابق بدل سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ہم چاہتے کہ دوائی وقت پر کھائیں تو اس کیلئے دوائی کی شیشی یا بوتل بیڈ کے ساتھ والی ٹیبل پر ہی رکھنی چاہیے، تاکہ دوا تک رسائی بھی آسان رہے اوروقت پر دوا کھانا بھی یاد رہے، اسی طرح طرح اگر آپ کو ڈاکٹر نے زیادہ پانی پینے کا مشورہ دیا تھا، تو ہمیں صبح اٹھتے ساتھ ہی اپنے گھر یا دفتر میں اس جگہ پر پانی کی بوتل رکھنی چاہیے جہاں زیادہ تر اپنا وقت گزارتے ہیں۔
لیکن جہاں نئی اور مثبت عادات کو اپنانا ضروری ہے، وہیں بری عادات کو چھوڑنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے عادی ہیں تو اپنی اس عادت سے چھٹکارا پانے کیلئے ضروری ہے کہ آپ سوشل میڈیا کے استعمال کے وہ تمام نقصانات لکھیں جن کا آپ کو اپنی روزمرہ زندگی میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال کی عادت یا کسی بھی دوسری بری عادت سے چھٹکارا پانے کیلئے دوسرا قدم یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس تک رسائی کو مشکل بنا دیا جائے ، اس کیلئے آپ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مشکل یا طویل پاسورڈ لگا سکتے ہیں یا پھر اپنے فون کو خو دسے دور رکھیں تا کہ بار بار فون پر آنے والے نوٹیفیکیشن آپ کو ڈسٹرب نہ کریں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ سوشل میڈیا پر آنے والے نوٹیفیکیشن کی ٹیون سن کر اور انہیں دیکھ کر انسانی ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ امریکی سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ فیس بک یا واٹس ایپ کی نوٹیفیکیشن ٹیون کو ہی کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ آپ اسے سنتے ہی اس کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک کے نوٹیفیکیشن ائکن کو ایسے بنایا گیا ہے کہ آپ جب ایک مرتبہ اس کی جانب دیکھتے ہیں تو آپ میں تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ نوٹیفیکیشن کس وجہ سے آیا ہے۔ اس مسئلے کا حل بھی سائنسدانوں نے انسانی رویوں کومدنظر رکھتے ہوئے تجویز کر دیا ہے کہ آپ ایک ایسے شخص یا دوست کو اپنے ساتھ رکھیں، جو آپ کو وقفے وقفے سے بتاتا رہے کہ سوشل میڈیا کا آپ کی زندگی میں کیا نقصان ہو رہا ہے، یوں آپ کسی بھی بری عادت سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، لیکن یہاں آپ کا اپنے دوست کی تنقید برداشت کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، یہ نہ ہوں کہ آپ اس کی تعمیری تنقید سے تنگ آ کر اپنی عادت کے بجائے دوست ہی سے چھٹکارا پا لیں۔