پیکا آرڈینینس کا مقصد صحافت پر پابندی لگانا ہے

صحافیوں ادیبوں اور کالم نگاروں کے پلیٹ فارم “پہچان” کے زیر اہتمام صوبائی دارالحکومت لاہور کے مقامی ہوٹل میں صحافیوں ، ادیبوں کالم نگاروں کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا ۔ عشائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمانوں نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافت پر قدغن لگائی جارہی ہے ۔ مختلف قوانین کی آڑ میں صحافت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے ۔

چیئرمین پنجابی میڈیا مدثر اقبال بٹ نے کہا کہ مختلف ادوار میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔ ماضی میں بھی یہ کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہونگی ۔ لاہور پریس کلب کے سابق صدر اور صحافی رہنما اعظم چودھری کا کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر پیکا ایکٹ کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ گل نوخیز اختر نے کہا صحافیوں کو مشترکہ جدوجہد کیلئے اکٹھے ہونا پڑے گا ۔

شاہد نذیر چودھری کا کہنا تھا کہ صحافت پر پہرے بٹھانا کسی طور مناسب عمل نہیں صحافت کو آزاد ہونا چاہیے ۔ امجد اقبال کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ صحافت اپنی شکل تبدیل کر چکی ہے لہذا ہمیں بھی جدید تقاضوں کو سمجھنا ہوگا ۔ صفدر علی خان نے کہا اس اہم مسئلے پر اکٹھے ہونا خوش آئند ہے ۔ ہم سب کو مل کر صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے کوششیں کرنا ہونگی ۔ عامر خاکوانی نے اپنی گفتگو میں کہا پرنٹ میڈیا شدید بحران کا شکار ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے مزید پابندیاں لگانا کسی طور مناسب نہیں ۔

اشرف سہیل نے کہا اس وقت صحافت اور صحافی دگرگوں حالات سے دوچار ہیں ۔ عشائیہ کے شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پیکا ایکٹ کو فی الفور واپس لیا جائے ۔ پیکا ایکٹ دراصل آزاد صحافت پر قدغن ہے ۔

عشائیہ میں مدثر اقبال بٹ ، اعظم چوہدری ، گل نوخیز اختر ، حق نواز گھمن ، ندیم رضا ، صفدر علی خان ،امجد اقبال ،عامر خاکوانی ،پیر ضیاء الحق نقشبندی ، ذبیح اللہ بلگن ، شاہد نذیر چودھری،خالد ارشاد صوفی ،رانا تنویر قاسم ،اشرف سہیل ،شہزادہ علی ذوالقرنین ،یوسف سراج ، فخر الاسلام ، ڈاکٹر شہباز منج ،خالد منہاس ،نعیم ثاقب ،بلال مدثر بٹ ، راؤ شاہد ، زبیر اعوان اور ناصر چوہان شریک تھے