معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کہانی کبھی ختم نہ ہو
سب رنگ کہانیوں کی نئی سیریز کی اشاعت نے بہت کچھ یاد دلا دیا۔
آج کل میں مشہور ادیب اور سابق فیڈرل سیکرٹری طارق محمود کی خودنوشت ”دامِ خیال‘‘ پڑھنے میں مصروف ہوں۔ عرصے بعد اردو میں ایک زبردست خود نوشت چھپی ہے جس میں پڑھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اپنے مزاج کے برعکس میں اس غیرمعمولی کتاب کو دھیرے دھیرے پڑھ رہا ہوں اور اس میں چھپے قصے کہانیوں سے حیران کن نتائج اخذ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ محمد افضال کچھ برسوں سے اس غیر معمولی خود نوشت کو چھاپنے کی کوشش کررہے تھے۔ اب اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہورہا ہے کہ واقعی اس کتاب پر وقت لگنا تھا۔
بعض کتابیں جہاں ادیبوں کے لیے لکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتی ہیں‘ وہیں انہیں چھاپنا بھی پبلشر کیلئے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہورہا ہے کہ محمد افضال کو اس کتاب پر اتنی محنت کیوں کرنا پڑی تھی۔ مجھے نعیم بھائی کی بات یاد آئی جو اکثر ٹالسٹائی کے عظیم ناول ”وار اینڈ پیس‘‘ کے بارے کہا کرتے تھے کہ انیسویں صدی کے یورپ کی تاریخ پڑھنے کے بجائے اس ناول کو پڑھ لیں۔ کسی اور کتاب کی شاید ضرورت نہ رہے۔ ”دامِ خیال‘‘ کے بارے بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے پچاس برسوں کی پاکستانی تاریخ پڑھنی ہو تو یہ اکیلی کتاب کافی ہے۔ بالخصوص ہماری نوجوان نسل‘ جو پچھلی ڈیڑھ‘ دو دہائیوں میں جوان ہوئی ہے‘ کو اگر تاریخ سے جڑنا ہے تو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب ابھی میرے زیرِ مطالعہ ہے‘ بلکہ پچھلے دنوں مسقط گیا تو بھی اسے ہمراہ رکھا۔
دوسری طرف ایک اور کتاب چھپ کر سامنے آئی ہے جو بک کارنر جہلم نے چھاپی ہے اور جو سب رنگ سیریز کا پانچواں حصہ ہے۔ جب بھی اس سیریز کا نیا حصہ چھپ کر آتا ہے تو میں ماضی میں پہنچ جاتا ہوں۔ سب رنگ کے نام سے میرے بچپن‘ لڑکپن اور جوانی تک کی یادیں جڑی ہیں۔ گھر میں بڑے بھائی ڈائجسٹ پڑھتے تھے تو ہم چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی چسکا لگنا فطری تھا۔ اماں کو یہ بات ہرگز پسند نہ تھی کہ ہم چھوٹے بچے بھی ڈائجسٹ پڑھیں۔ یہ الگ بات کہ خود اماں میری بہن کو کہہ کر ڈائجسٹوں کی کہانیاں سنتی تھیں اور ساتھ ساتھ ان کہانیوں کے کرداروں پر تبصرے بھی کرتی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اس نسل سے ہوں جس نے ان برسوں میں ہر طرح کی ٹیکنالوجی اور سوچ کو بدلتے دیکھا اور سب تجربات کیے۔ آج کے جدید دور کی نسل یقین نہیں کر پائے گی کہ 1980ء کی دہائی میں دیہات میں پولیس اس لیے چھاپے مار کر لوگوں کو گرفتار کرکے لے جاتی تھی کہ وہ کسی کھیت کھلیان یا کسی اور جگہ پر بیٹھ کر فلمیں دیکھ رہے ہوتے تھے‘ اس دور میں صرف ایک ٹی وی ہوتا کرتا تھا اور پورا گاؤں بے چینی سے شام ہونے کا انتظار کرتا تھا۔ اس دور میں انٹینا ایسی ٹیکنالوجی تھا جسے درست سمت میں رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوتا تھا۔ سگنلز کی تلاش ایک ایسا کام تھا جس کا سوچ کر آج بھی دانتوں تک پسینہ آجاتا ہے۔
اب جب سب رنگ سیریز کی پانچویں جلد میرے ہاتھ میں ہے تو برسوں پہلے کا گاؤں آنکھوں سے گزر گیا جب سلیم بھائی کا ہم انتظار کرتے تھے کہ وہ لیہ بینک سے واپسی پر سب رنگ‘ جاسوسی‘ سسپنس‘ عمران ڈائجسٹ یا حکایت لائیں گے۔ میں اس وقت عمرو عیار‘ سامری جادوگر اور ٹارزن کی کہانیوں کے دور سے نکل کر ڈائجسٹ کی دنیا میں داخل ہورہا تھا۔
کہانیاں‘ قصے سننے اور سنانے کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود۔ ہر گھر میں دادی‘ نانی کا یہی کام ہوتا تھا کہ وہ اپنے پوتے‘ پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کو قصے سنائیں۔ مسافر جب طویل مسافت سے تھک کر راستے میں آنے والے کسی سرائے میں رکتے تو جہاں ان کے قیام و طعام کی سہولتوں کا خیال رکھا جاتا‘ وہیں قصے خواں بھی موجود ہوتے۔ تھکے ہارے مسافر سرد رات کو آگ کے الائو کے گرد بیٹھ کر سرخ دہکتے انگاروں کی روشنی میں ایک دوسرے کو قصے سناتے تھے۔ مختلف علاقوں اور ملکوں سے تعلق رکھنے والے ان مسافروں ہی نے قصہ گوئی کے فن کو عروج بخشا۔ قصے کہانیاں ہماری فطرت میں ہیں۔ ایک تجسس ہے جو ان قصے کہانیوں میں چھپا ہے اور جو آپ کو بے قرار رکھتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اماں سے رات کو کہانیاں سنتا تھا۔ گھر کے برآمدے میں رات کو تھکی ہاری اماں بڑی مشکل سے نیند سے لڑتے ہوئے مجھے کہانی سناتیں۔ درمیان میں آنکھ لگ جاتی تو میں انہیں ہلا کر کہتا: پھر کیا ہوا؟ وہ آنکھ کھول کر قصے کو کچھ آگے بڑھاتیں اور پھر سو جاتیں۔ میں پھر دوبارہ جگاتا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک میں خود نہ سو جاتا۔ ہمارے گھر میں ان رسائل کا بڑا کردار تھا۔ شاید گائوں میں واحد ہمارا گھر تھا جہاں ایک اردو اخبار اور پانچ‘ چھ ڈائجسٹ آتے تھے۔ اس لیے سب رنگ کہانیوں کی نئی جلد ہر دفعہ مجھے اپنے ماضی میں لے جاتی ہے۔ جتنا انتظار اس رسالے نے کرایا‘ وہ شاید ہی زندگی میں کبھی کیا ہو۔ اس رسالے سے میں نے ایک سبق بھی سیکھا کہ اگر آپ کی باتوں‘ تحریروں یا خیالات میں جان ہے تو لوگ آپ کا تین‘ تین سال تک بھی انتظار کریں گے ورنہ آپ روز بھی چھپ یا بول رہے ہوں‘ لوگ آپ پر توجہ تک نہ دیں گے۔ تین سال بہت بڑا عرصہ ہے۔ لوگ اس عرصے میں تو اپنے مرحومین تک کو بھول جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اس بات پر توجہ دیں‘ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ کب اور کس جگہ چھپتے ہیں۔ اگر آپ کے اندر کچھ ہے تو پڑھنے والا آپ کو ڈھونڈ نکالے گا۔
سب رنگ تو بند ہوگیا اور بڑے عرصے تک لوگوں کا اصرار رہا کہ شاید دوبارہ شروع ہو سکے۔ شکیل عادل زادہ صاحب نے ایک دن شاہد صدیقی صاحب کے گھر ڈنر ٹیبل پر وہ بات کہہ دی کہ بھائی اب کہانی کہاں سے لائوں۔ اس دن کے بعد میں نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ سب رنگ دوبارہ شروع کریں۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے اپنے ذہن میں دو تین سلسلہ وار کہانیوں کا مواد ہے۔ وہ سب نئی کہانیاںذہن میں ہی رہ گئیں۔ نئی کہانیاں کہاں لکھی جاتیں‘ الٹا جو کہانی لاکھوں دلوں کو تڑپائے ہوئے تھی ”بازی گر‘‘ وہ بھی نامکمل رہی۔ اب تو لوگوں نے پوچھنا اور اصرار کرنا بھی چھوڑ دیا۔ لیکن پھر منڈی بہاء الدین سے حسن رضا گوندل اٹھے اور انہوں نے اس رسالے کو نئے رنگ دینے کا فیصلہ کیا اور بک کارنر جہلم نے اس بھاری پتھر کو اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں شکیل عادل زادہ سب رنگ تو واپس نہ لا سکے لیکن ان برسوں میں سب رنگ میں چھپی پرانی کہانیوں کو نئے رنگوں کے ساتھ ڈیزائن کر کے دوبارہ چھاپ کر ہماری جیسی نسل کو اسی اور نوے کی دہائی میں لے جا کھڑا کیا۔ ہمارا ناسٹلجیا ہمیں واپس کیا۔ ان دنوں کی یاد واپس آئی جب سب رنگ کے لیے دو تین برس تک انتظار ہوتا تھا۔
سب رنگ کہانیوں کی اس پانچویں جلد کو ہاتھوں میں تھامے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔ لوگ کہتے تھے کہ اب کون ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں کتابیں پڑھے گا‘ اب سب کچھ فون پر آچکا‘ اب پی ڈی ایف‘ ای بکس کا دور ہے۔ لیکن میرا خیال ہے محمد افضال‘ امر شاہد اور گگن شاہد جیسے دوست جس طرح کی کتابیں چھاپ رہے ہیں اور وہ پڑھی جارہی ہیں‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب کا لمس اور کاغذ کی خوشبو آج بھی انسان کو اتنا ہی مدہوش کرتی ہے جیسے برسوں سے کرتی آئی ہے۔ نہ کبھی قصے کہانیاں بوڑھے ہوں گے نہ کتابیں اور نہ ہی ہم انسان۔ سب رنگ کی یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے پتا نہیں کیوں مجھے اپنے گائوں کا شبرا چاچا یاد آیا جو گائوں کی گرم دوپہر میں ایک چھپڑ تلے جہاں ہم بچوں کو برف کے گولے بنا کر بیچتا تھا‘ وہیں ایسے ایسے قصے سناتا تھا کہ ہم بچے چاہتے تھے کہ گرمیوں کی یہ دوپہر کبھی ختم نہ ہو۔ مسافروں کی مسافت ختم نہ ہو‘ کہانی کبھی ختم نہ ہو۔