معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
یونہی روز ہوتی تھی تکرار اُن میں
ربیع الاول کا چاند طلوع ہوتے ہی دنیا بھر میں مسلمان محافل ِ میلاد‘ نعتیہ مشاعروں‘ مذاکروں‘ مباحثوں کا انعقاد شروع کر دیتے ہیں۔اس مبارک مہینے میں رسول اکرمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تھے‘ہر ملک اور علاقے کے کلمہ گو اپنے اپنے ثقافتی پس منظر کے مطابق تقریبات منعقد کرتے اور ثواب کماتے ہیں۔ہمارے حکومتی زعماء‘ سیاسی رہنما‘ علمائے کرام اور دانشورانِ عظام لوگوں کو رسول اللہﷺ کی تعلیمات کو اپنانے اور دین و دنیا کو سنوارنے کی تلقین کرتے ہیں‘ ہر شخص دوسرے کی توجہ اسوۂ حسنہ کی طرف دلاتا ہے لیکن کم ہی ہیں جو دوسروں کے بجائے اپنا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔پاکستانی معاشرے میں اس وقت بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں‘لغت میں کوئی ایسا منفی لفظ نہیں بچا جو فریقین ایک دوسرے کے لیے استعمال نہ کر رہے ہوں۔جھوٹا‘ فراڈیا‘ غدار‘ لٹیرا‘ خائن‘ بدکار‘ ڈاکو اور لٹیرا جو لفظ کسی کے ذہن میں ہاتھ میں آتا ہے‘ وہ اسے دوسرے کے سر پر دے مارتا ہے اور ساتھ ہی رسول اکرمﷺ کی محبت میں سرشاری کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ مدینے کی ریاست کا تذکرہ بھی شدت سے ہوتا ہے اور پاکستانی ریاست کو اس قالب میں ڈھالنے کے ارادے بھی باندھے جاتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آنے کی تلقین کی تھی‘کس طرح بہتان طرازی اور تہمت تراشی سے روکا تھا‘ کس طرح ایک مسلمان کو دوسرے کا آئینہ قرار دیا تھا‘ کس طرح ایک مسلمان کو دوسرے کی طاقت بن جانے کی تلقین کی تھی‘ وہ کسی کو یاد نہیں ہے‘جتھے بنائے جا رہے ہیں انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں‘اس کے ساتھ ہی ساتھ سیرت کے تذکرے جاری ہیں۔ربیع الاول کے مہینے سے حصولِ برکت کی رٹ بھی لگائی جا رہی ہے۔ رسول اکرمﷺ کس معاشرے میں مبعوت ہوئے تھے‘ انہوں نے اسے دیکھتے ہی دیکھتے کیسے بدل ڈالا تھا‘ اس طرف دیکھنے کی کسی کو ضرورت ہے نہ فرصت‘ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی بات کوئی نہیں کر رہا‘ زور اس بات پر لگا ہوا ہے کہ دوسرا اپنے آپ کو بدل ڈالے۔ہر شخص کا منہ دوسرے کے گریبان میں جھانکنے کے لیے بے تاب ہے۔اپنے گریبان میں اپنا منہ ڈالنے کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہو رہی‘وہی منظر ہے جو مولانا الطاف حسین حالی نے برسوں پہلے اپنے مسدّس میں کھینچا تھا:
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر ایک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سمجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
پاکستان کی نامور افسانہ نگار بشریٰ رحمن جن کا کچھ ہی عرصہ پہلے انتقال ہوا ہے‘ان کے منفرد اسلوب سے مالا مال ”سیرت محبوبِ رب العالمین‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے‘اس کے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ شاید کسی کی آنکھیں کھلیں:
”اہل ِ عرب چونکہ جنگجویانہ فطرت رکھتے تھے‘اس لیے چھوٹے سے چھوٹے اختلاف پر بھی تلواریں میان سے نکال لیتے تھے۔ اگر کوئی جنگ فیصلہ کن نہ ہوتی تو کئی قسطوں میں چلتی رہتی۔ مقامِ عکاظ میں ایک عظیم الشان سالانہ میلہ لگا کرتا تھا۔ میلہ کیا تھا یہ ایک قسم کا ایک ایسا ثقافتی و تجارتی شوہوتا تھا جس میں صنعت و حرفت کے سٹال لگانے کے علاوہ تمام رائج الوقت ہنر اور فنون آزمائے جاتے تھے مثلاً پہلوانوں کی کشتیاں ہوتی تھیں‘ گھڑ دوڑہوتی‘ اونٹوں کی دوڑ ہوتی‘ فنونِ سپہ گری اور تلواریں چلانے کے مقابلے ہوتے‘مشاعرے ہوتے‘ آوازے کسے جاتے‘ زبان دانی کے مظاہرے آمنے سامنے ہوتے‘ہار جیت کے فیصلوں پر نعرے لگائے جاتے اور مقابل پر اوچھے وار کیے جاتے۔کبھی کبھی اس قسم کے مناظر اور مقابلے نزاعی بن جاتے اور ایک قسم کی جنگ چھڑ جاتی۔ لڑنا‘ جھگڑنا‘ چھوٹے چھوٹے اختلافات کی زد میں آکر آمنے سامنے جنگ کا سماں پیدا کر دیتا‘ ذرا سی للکار کو اَنا کا مسئلہ بنا لینا‘ عرب قبائل کا طرزِ زندگی بن گیا تھا۔ اس طرزِ زندگی نے کئی نسلوں کی زندگیاں دائو پر لگا کر تباہ کر دی تھیں۔اس وقت بھی جھگڑے ہی کی ایک صورت پیدا ہو گئی جب کعبۃ اللہ میں حجرِ اسود کو نصب کرنے کا موقع آیا۔ ”میں … میں‘ تو … تو … برتری … کم تری …‘‘ سب کا پیمانہ تفاخر سے لبالب بھرا تھا اور سب لوگ یہ عظیم الشان کارکردگی‘ یعنی جنت سے لایا ہوا پتھر اپنے اپنے ہاتھوں سے دیوارِ کعبہ میں چن دینا چاہتے تھے۔ اس بار مکہ میں بارشیں بہت ہوئی تھیں‘ چونکہ خانہ کعبہ نشیب میں واقع تھا‘ اس لیے اس کی بنیادوں میں پانی جمع ہو جانے سے عمارت کو گزند پہنچی تھی۔اہل ِ قریش کی قسمت جاگی‘ انہوں نے کعبہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا‘ باقی قبائل نے بھی شریک ہونا چاہا تو سب کے ذمے کعبۃ اللہ کے مختلف حصوں کی تعمیر کے اخراجات لگا دیے گئے۔چار دن یہی جھگڑا چلتا رہا کہ کون اس قابل ہے کہ حجرِ اسود کو اٹھا کر اپنی جگہ پر لگا دے۔ اہل ِ قریش میں سب سے معمر شخص ابوامیہ بن مغیرہ تھے۔ پانچویں دن انہوں نے ایک حل سوچ لیا۔ تمام قبائل کو اکٹھا کر کے کہنے لگے اس کارِ خیر کا فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ کل جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو گا‘ اس کو ثالث قرار دے لیں گے اور جو فیصلہ وہ کرے گا اسی پر عمل کیا جائے گا۔ سب متفق ہو کر گھروں کو چلے گئے۔ دوسرے دن تمام قبائل کے معززین منہ اندھیرے ہی کعبۃ اللہ میں جمع ہو گئے ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ خود حجرِ اسود کس کا منتظر ہے اور کس کی آہٹیں سننے کے لیے بے قرار ہے‘ صبح صادق کے سنہری جلوئوں کے اندر سے ایک نور نمودار ہوا۔ پو پھٹ گئی‘ اُجالا بکھر گیا محمد بن عبداللہ الصادق الامین مسکراتے ہوئے تشریف لا رہے تھے۔الصادق اور الامین نے تمام حالات سے آگاہی حاصل کر کے اس اعزاز کو صرف اپنا حق بنانے کے بجائے تمام اہل ِ قریش کے قبائل میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ایک بڑی چادر منگوائی اور تمام قبائل میں سے ایک ایک سردار کو منتخب کر کے فرمایا کہ آپ سب اپنے اپنے ہاتھوں سے حجرِ اسود کو اٹھا کر اس چادر پر رکھ دیں‘ پھر سب سے فرمایا مل کر چادر کو اٹھائو اور خانہ کعبہ کے اس کونے تک لے جائو۔ کونے پر پہنچ کر ان سب نے بے اختیار کہہ دیا کہ اب اسے صادق اور امین اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر دیوار میں نصب کر دیں‘‘۔
اے وہ لوگو جن کو آنکھیں عطا ہوئی ہیں‘انہیں کھولتے کیوں نہیں ہو‘ اپنے آپ پر ایک نظر کیوں نہیں ڈالتے؟