ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

مبینہ آڈیو لیکس پر تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک دی گئی۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے، آج کی کارروائی کا حکم نامہ جاری کریں گے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم کمیشن کے سامنے پیش ہو کر پڑھ کر سنایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق فریقوں کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، کمیشن کو حکم نامے کی کاپی فراہم کی جائے، سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ تھوڑا بہت آئین میں بھی جاننا چاہتا ہوں، کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا تو کام سے کیسے روک دیا، کمیشن معاملے میں فریق تھا، اسے نوٹس کیوں نہیں کیا گیا۔

آپ کیوں کل کمرۂ عدالت میں تھے؟ جسٹس فائز کا اٹارنی جنرل سے سوال

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کیوں کل کمرۂ عدالت میں تھے؟ آپ کو نوٹس کیا گیا تھا یا ویسے ہی بیٹھے تھے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج کے خلاف الزام پر سیدھا ریفرنس جائے تو وہ پوری زندگی بھگتتا رہے گا،

شعیب شاہین ایک وکیل ہیں، ہر وقت وہ ٹی وی پر تقریر کر رہے ہوتے ہیں، رولز کے مطابق وکیل اپنے مقدمے سے متعلق میڈیا پر بات نہیں کر سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا اور سوال کیا کہ آپ کا کیا نام ہے؟

عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے۔

عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، جسٹس قاضی فائز

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہو سکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی، ان کے دوسرے فریق نے کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور میں ہیں، انہوں نے کہا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں، عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آ کر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈر ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا، شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں، یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کی۔

کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم صرف اللّٰہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلاء پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہمیں قانون سکھانے آ گئے ہیں، کوئی بات نہیں، سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے، وکلاء کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے اور کہا کہ ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں، اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائے گا آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حلف کے تحت اس کمیشن کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لیے آرڈر لیتے تھے اگلے روز جا کر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے۔

کل کے حکم نامہ میں ہیکرز اور ٹوئٹر سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ کے سوالات
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ٹوئٹر کیا ہے؟ پتہ تو چلے کہ کون آڈیو جاری کر رہا اصلی ہیں بھی یا نہیں، ہو سکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوز ہیں انہوں نے خود جاری کی ہوں، ہو سکتا ہے عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو، تحقیقات ہوں گی تو یہ سب پتہ چل سکے گا، جج کو پیسے دینے کی بات ہو رہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آ جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو۔

ہم آڈیوز کی تحقیقات کرتے تو پتہ چلتا کہ حقیقت کیا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا اس لیے ہم بیٹھے ہیں، کیا مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئے گی؟ ہم آڈیوز کی تحقیقات کرتے تو پتہ چلتا کہ حقیقت کیا ہے، یہ آڈیوز ریکارڈ کس نے کی، اس کا بھی بعد میں پتہ چلا لیتے، ججز اور وکلاء کی آڈیوز سامنے آئیں مگر شاید کچھ لوگ چاہتے ہیں اس کی تحقیقات نہ ہوں، گزشتہ روز جن درخواستوں پر سماعت ہوئی کیا وہ قانون کے مطابق تھا، میرے خیال میں کل جن درخواستوں پر سماعت ہوئی وہ جلدی مقرر کی گئیں، گزشتہ روز کے کیس میں درخواست گزاروں نے بیان حلفی بھی نہیں دیا ہوا۔

شعیب شاہین سے ایک ٹی وی پروگرام میں پلانٹڈ سوال کیے گئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن کو سنے بغیر ہی 5 رکنی بینچ نے آرڈر دے دیا، ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ماتحت عدلیہ اور ایگزیکٹو پر لاگو ہوتا ہے مگر سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا، 5 رکنی بینچ کے آرڈر میں فیڈرل ازم کی بات کی گئی، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کے کئی فیصلے کالعدم قرار دیے، بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا، مبینہ آڈیوز کے خلاف درخواست گزار نے عوامی مفاد عامہ کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا، شعیب شاہین سے ایک ٹی وی پروگرام میں پلانٹڈ سوال کیے گئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

آڈیو لیکس کمیشن کے قیام کیخلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔

تحریری حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری کیا اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کا 19 مئی کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاقیت کے اصول کے تحت دو ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی نامزدگی کے لیے بھی چیف جسٹس سے مشورہ ضروری ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ججز کو نامزد کرنے سے ججوں پر شبہات پیدا ہوئے۔