معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
آج اور کل
کراچی سے ایک دوست بطور خاص مجھے ملنے لاہور آیا، میں نے اپنی کار اور ڈرائیور اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا ’’میں آفس جا رہا ہوں، تم اس دوران شہر کی سیر کرو اور دوسرے دوستوں سے بھی مل لو، بعد میں ہم رات گئے تک اکٹھے ہوں گے‘‘۔ بولا ’’میں نے لاہور بہت خوشگوار موسم میں دیکھا ہوا ہے، شام کو موسم اچھاہوا تو تمہارے ساتھ ہی گھوموں پھروں گا ، اور ہاں اگر لاہور میں میرا کوئی اور دوست بھی ہوتا تو میں نے تم ہی سے آکر ملنا تھا‘‘۔میں نے اس کی مزید ہذیانی گفتگو سننے سے بہتر سمجھا کہ اسے اپنے ساتھ آفس لے جائوں مگر شرط عائد کر دی کہ میرے کالم لکھنے کے دوران تم مجھے ڈسٹرب نہیں کرو گے۔ چنانچہ وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا اور ایک کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا۔ میں نے ابھی چند لائنیں ہی لکھی تھیں کہ اس نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا کہ ’’عمران خان اسلام آباد کو ہاتھ لگا کر واپس کیوں چلا گیا؟‘‘ میں نے کہا بعد میں بات کریں گے اور دوبارہ منتشر خیالات کو مجتمع کرکے لکھنا شروع کر دیا۔ اس نے پھر مجھے مخاطب کیا ’’تم نیوٹرل ہو؟ میں نے جواب دیا نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں، میں بہروپ بدلتا رہتا ہوںاور دوسروں سے بھی یہی امید رکھتا ہوں، انسان کو بوقت ضرورت نیوٹرل اور کبھی کسی ضرورت کے تحت جانبدار ہونا چاہیے، اس کے بعد میں نے اپنی کاوش جاری رکھی، میں ان لوگوں کے بارے میں لکھ رہا تھا، جو آپ سے بہت کچھ ڈیمانڈ کرتے ہیں مگر خود آپ کے لئے تنکا توڑنے پر بھی راضی نہیں ہوتے۔ میں ایک دوست کے بارے میں بتا رہا تھا جو مجھ سے صرف اس بات پر ناراض ہے کہ ’’تم نے میرے لئے زندگی میں بہت کچھ کیا، بجا، مگر کیاتم نے اس مہینے میرے لئے کچھ کیا؟‘‘ میں نے اس کو جواب میں کہا ’’ میں نے تم سے کبھی کوئی چیز ڈیمانڈ نہیں کی مگر تمہارا دل تو چاہتا ہوگا کہ تم بھی کبھی کچھ میرےلئے کرو‘‘ بولا کیوں نہیں، میں ابھی دس مرلے کا ایک پلاٹ دیکھ کر آیا ہوں ، وہاں دو منزلہ مکان تعمیر کروں گا۔ ایک منزل میں تم رہو گے اور ایک منزل میں میں رہائش اختیار کروں گا‘‘۔ یہ زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں اپنے اس دوست سے اس کی زبان سے اپنے لئے یہ نیک خواہش سن رہا تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا اللہ تمہیں یہ گھر نصیب کرے، تم اپنی فیملی کے ساتھ وہاں خوش و خرم زندگی بسر کرو، میرے پاس پہلے سے ایک کٹیا ہے، جہاں میں بہت اچھی زندگی بسر کر رہا ہوں‘‘۔ اس نے جاتے وقت میرا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’پرابلم یہ ہے کہ میرے پاس پلاٹ کے لئے پیسے نہیں ہیں اور ظاہر ہے مشکل وقت میں دوست ہی کام آتے ہیں‘‘۔
میں نےابھی اتنا ہی لکھا تھا کہ میرے مہمان دوست نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور مجھے مخاطب کرکے کہا ’’یہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، کیا ہم فاشزم کی طرف نہیں جا رہے۔ خونی انقلاب، مار دھاڑ، اداروں کو بلیک میل کرنا، اپنی مرضی کی پالیسیاں بنوانے کی کوشش کرنا، عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نفرتیں پیدا کرنا، ان کے گھروں پر حملے کرنا، ریستورانوں میں ان پر اور ان کی فیملی پر آوازے کسنا، یہ سب کیا ہے؟ میں نے کہا ’’مجھے پتہ نہیں اس وقت میں نیوٹرل ہوں ‘‘ اور دوبارہ لکھناشروع کر دیا اس نے ایک دفعہ پھر مجھے ٹوکا اور بولا ’’موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے پہلے سے ہوئے معاہدے کے نتیجے میں پٹرول کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی ہیں۔ کیا ہوگا یار!‘‘میں نے کہا مجھے کیا پتہ جانبداروں سے پوچھنا جن کا یہ سب کیا دھرا ہے‘‘۔
میرا دوست ابھی اور بہت کچھ پوچھنا چا ہ رہا تھا میں نے کہا ’’یار یہ سیاسی سوال نہ پوچھو، ادیب نیوٹرل ہوتا ہے تم سنائو آج کل کیا لکھ رہے ہو، کہنے لگا میں بھی ادیب ہوں، نیوٹرل ہوں چنانچہ جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں میرے ریڈر کو اس کی ہوا تک نہیں لگتی کہ میں ظالم کے ساتھ ہوں یا مظلوم کا ساتھی ہوں‘‘ پھر اچانک اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوئی اس نے ہاتھوں میں تھامی کتاب کے ایک صفحہ پر شائع شدہ محمد اظہار الحق کی ناسٹلجیاسے بھری غزل میرے سامنے رکھ دی، کیا غضب کی غزل تھی میں نے پڑھنا شروع کر دی۔
یہ نخل جس پہ آج ہیں لمحے لگے ہوئے
اس پر تھے سال اور مہینے لگے ہوئے
یوں ہے کہ میں بھی چاند تھا ، دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اس پہ الوچے لگے ہوئے
کیا کیا تھے دن کو اسپ سواری کے ذائقے
قاف اور پری کے رات کو قصے لگے ہوئے
مستور سرخ رنگ رداؤں میں بیبیاں
اونٹوں پہ زرد رنگ کجاوے لگے ہوئے
مر مر سے جیسے تر شا ہوا تھا تمام باغ
پیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئے
پوتوں نواسیوں کے چمن زار ! واہ واہ
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
دیکھا کریں گے اہل زمیں کو پس از وفات
ہیں آسماں پہ ہجر دریچے لگے ہوئے
سر ہو سکی نہ ان کی مدد سے کوئی مہم
دیوار دل پہ عشق کے نقشے لگے ہوئے
اس ریگزار درد میں احباب کا وجود
اس دھوپ میں ہیں چھاؤں کے ٹکڑے لگے ہوئے
یہ بحر و بر ہے کھیل فراق و وصال کا
ہیں پانیوں کے ساتھ جزیرے لگے ہوئے
اور اب میں اور میرا دوست دونوں ایک خوبصورت اداسی کی زد میں ہیں۔ شاعری بھی کیا چیز ہے یہ ہمیں صحرائوں سے پھولوں بھری وادیوں میں لے جاتی ہے جہاں ہم کبھی رہتے تھے یا جہاں ہمیں آباد ہونے کی خواہش ہوتی ہے!