پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
Top Lobster
لابسٹر (Lobster) سمندر میں ہوتے ہیں اور ہم انسان انھیں بڑی رغبت سے کھاتے ہیں‘ ہم اور لابسٹر دونوں مکمل طور پر مختلف مخلوق ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دونوں میں ایک چیز کامن ہے اور وہ ہے سیروٹونین (Serotonin) اور آکٹوپامن (Octopamin) کیمیکل کا کمبی نیشن‘ ہم انسانوں اور لابسٹر کی ترقی اور تنزلی کا سسٹم ایک ہی ہے‘ہم دونوں ایک ہی طرح زندگی میں آگے بڑھتے اور کام یاب ہوتے ہیں‘ یہ سسٹم کیا ہے؟
ہم اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں‘ آپ مختلف قسم کے لابسٹرز کو پکڑیں اور کسی ڈرم میں پھینک دیں‘ لابسٹر فوری طور پر ڈرم کے مختلف کونوں میں گردش کریں گے اور پھر چند لمحوں میں ڈرم کو اچھے اور برے دو حصوں میں تقسیم کر دیں گے اور پھر اچھی جگہ کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے‘ ان کی لڑائیاں چاراسٹیجز میں ہوں گی‘ سب سے پہلے بڑے سائز کا لابسٹر اس اچھی جگہ پر قابض ہو جائے گا‘ ڈرم میں اگر اس وقت صرف ایک لابسٹربڑا اور باقی سائز میں چھوٹے ہوں گے تو چھوٹے بڑے کے حق کو تسلیم کر لیں گے اور یوں یہ معاملہ پہلی اسٹیج پر نبٹ جائے گا لیکن اگر ڈرم میں دو یا دو سے زائد برابر سائز کے لابسٹر ہوں گے تو پھر لڑائی کا دوسرا فیز شروع ہو جائے گا‘ یہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کر دیں گے۔
اس فیز میں اگر کوئی ایک لابسٹر جیت گیا اور دوسرے یا دوسروں نے سائز میں برابر ہونے کے باوجود اپنی ہار مان لی تو معاملہ یہاں بھی نبٹ جائے گا اور اس ڈرم میں سب اطمینان اور شانتی کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں گے لیکن اگر ڈرانے اور دھمکانے کے بعد بھی جنگ کا فیصلہ نہیں ہوتا تو پھر جھڑپیں شروع ہو جائیں گے‘ بڑے سائز کے لابسٹر ایک دوسرے کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیں گے‘ یہ جنگ اگر یہاں سیٹل ہو گئی تو ٹھیک ورنہ بہترین جگہ کے حصول کی لڑائی چوتھے اور آخری فیز میں داخل ہو جائے گی‘ فریقین کے درمیان خوف ناک لڑائی ہو گی اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی ایک اپنی شکست نہیں مانتا یا کوئی ایک مر نہیں جاتا۔
اگر ایک فریق شکست مان لے تو ڈرم کی بہترین جگہ جیتنے والے کے قبضے میں چلی جائے گی اور یوں ڈرم میں امن ہو جائے گا اور جیتنے والا ڈرم کے تمام باسیوں کا سردار بن جائے گا اور ہارنے والے اس کی رعایا‘ یہ آخری جنگ سیٹل ہونے کے بعد ڈرم کی فضا میں ایک نئی تبدیلی آ جائے گی‘ کام یاب لابسٹر کا سائز مزید بڑا ہو نے لگے گا اور یہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہو جائے گا اور تمام فی میل لابسٹرز اس کام یاب لابسٹر کی طرف متوجہ ہو جائیں گی اور وہ مضبوط‘ خوب صورت اور سائز میں بڑے لابسٹر پیدا کریں گی‘یہ کام یاب لابسٹرحیاتیات کی زبان میں ٹاپ لابسٹر کہلاتا ہے۔
ماہرین طویل مدت سے ریسرچ کر رہے تھے لابسٹر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے کیوں ہیں؟ جیتنے والے لابسٹر جیت کے بعد مزید بڑے اور خوب صورت کیوں ہو جاتے ہیں اور ہارنے والوں کا سائز کیوں چھوٹا رہ جاتا ہے اور یہ بدصورت اور بے ہمت کیوں ہو جاتے ہیں؟ طویل ریسرچ کے بعد پتا چلا یہ دو کیمیکلز سیروٹونین اور آکٹوپامن کا کھیل ہے‘ لابسٹر جوں جوں جیتتا جاتا ہے اس کے جسم میں سیروٹونین کیمیکل کی مقدار بڑھتی اور آکٹوپامن کی کم ہوتی جاتی ہے اور یہ جب حریفوں کو مکمل طور پر شکست دے دیتا ہے تو سیروٹونین انتہائی بلندی اور آکٹوپامن انتہائی پستی کو چھو رہا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کے سائز اور کشش دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ ٹاپ لابسٹر بن جاتا ہے جب کہ باقی لابسٹر اس سے کم تر ‘ چھوٹے اور بدصورت ہونے لگتے ہیں اور یہ باقی زندگی اس سے لڑنے یا الجھنے کی غلطی نہیں کرتے‘ ہم انسانوں میں بھی ترقی اور تنزلی‘ بہادری اور بزدلی اور خوب صورتی اور بدصورتی کا یہی کمبی نیشن ہوتا ہے‘ ہم بھی انھی دونوں کیمیکلز کا کھیل ہیں‘ ہم جب زندگی میں کام یاب ہونے لگتے ہیں تو ہمارا سیروٹونین بھی بڑھنے لگتا ہے اور آکٹوپامن کی سطح نیچے آنے لگتی ہے‘ ہم جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں ہمارا سیروٹونین اوپر جاتا جاتا ہے اور آکٹوپامن نیچے سے نیچے ہوتا جاتا ہے جب کہ ناکامی کی صورت میں سیروٹونین کا لیول پست ہوتا جاتا ہے اور آکٹوپامن کی سطح بڑھتی جاتی ہے لہٰذا ناکام لوگ پست ہمتی‘ بے بسی‘ خودترسی اور مظلومیت کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔
سیلف ہیلپ کی دنیا میں طویل عرصے سے یہ بحث چل رہی تھی امیر اور کام یاب آدمی کی دولت‘ صحت‘ عمر‘انرجی‘ خوب صورتی اور چارم میں کیوں اضافہ ہو جاتا ہے اور غریب آدمی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیوں مزید غریب‘ بیمار‘ بد صورت اور چارم لیس ہوتا جاتا ہے‘ لابسٹر پر ریسرچ کے بعد پتا چلا اس کے ذمے دار سیروٹونین اور آکٹوپامن کیمیکلز ہیں‘ ان کی شرح غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بناتی چلی جاتی ہے‘ہماری دولت اور کام یابی میں جوں ہی اضافہ ہوتا ہے ہماری شخصیت میں چارم بھی پیدا ہو جاتا ہے‘ ہم خوب صورت بھی ہو جاتے ہیں اورہماری عمر بھی لمبی ہو جاتی ہے جب کہ غریب آدمی میں یہ سائیکل الٹا ہوتا ہے‘ یہ جوں جوں ناکام ہوتا جاتا ہے اس کا آکٹوپامن لیول اوپر جاتا جاتا ہے اور یوں یہ غربت کے ساتھ ساتھ بیمار بھی ہوتا جاتا ہے‘ اس کا قد اور وزن بھی کم ہوتا جاتا ہے اور یہ چارم لیس بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ تھیوری جوں ہی آئی یہ گتھی بھی سلجھ گئی کام یاب آدمی مزید کام یاب‘ امیر آدمی مزید امیر‘اچھا اسپورٹس مین مزید اچھا اسپورٹس مین‘ مشہور لکھاری مزید مشہور لکھاری‘ کامیاب ایکٹر مزید کام یاب ایکٹر‘ کام یاب سیاست دان مزید کام یاب سیاست دان اور کام یاب سائنس دان مزید کام یاب سائنس دان کیسے بن جاتے ہیں؟ یہ بھی معلوم ہو گیا ایڈی سن نے صرف 84 سال کی زندگی میں 1093 ایجادات کیسے کر لی تھیں‘ دنیا کے تین ہزار بلینئر کورونا کے زمانے میں مزید امیر کیسے ہو گئے‘ شاہ رخ خان اورسلمان خان اسٹار سے سپر اسٹار کیسے بن گئے اور برین ٹریسی کی تخلیق اور ریسرچ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ کیسے ہوتا گیا اور دنیا کے کام یاب لوگ ستر اسی سال کی عمر میں نئی شادی کیوں اور کیسے کر لیتے ہیں اور ان پر نوجوان لڑکیاں کیوں مرنے لگتی ہیں اور ان لوگوں کی اوسط عمر نوے سال کیوں ہوتی ہے؟
یہ سب سیروٹونین کا کمال ہے‘ یہ کام یاب لوگوں کے جسم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سے مزید ککس دیتا جاتا ہے اور یہ آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں‘یہ نکھرتے چلے جاتے ہیں‘ پاکستان میں سید بابر علی‘ عمران خان‘ طلعت حسین‘ مستنصر حسین تارڑ‘ عطاء الحق قاسمی اور پروفیسر احمد رفیق اس کی مثال ہیں‘ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ جوان‘ متحرک‘ چارم فل‘ بزلہ سنج اور بہادرہوتے جا رہے ہیں‘ طلعت حسین صحافی ہیں‘ یہ پانچ سال سے مشکل دور سے بھی گزر رہے ہیں لیکن یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ فٹ‘ خوب صورت اور بہادر ہوتے جا رہے ہیں‘ پروفیسر احمد رفیق نوے سال کو ٹچ کر رہے ہیں لیکن یہ آج بھی پندرہ پندرہ گھنٹے بولتے اور درجنوں لوگوں سے روزانہ ملتے ہیں اور ہم عمران خان اور میاں شہباز شریف کی سیاسی زندگی سے بھی لاکھ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ لوگ جسمانی لحاظ سے انتہائی فٹ بھی ہیں اور یہ ایک بار پھر اپنی ’’سیاسی سپیس‘‘ بھی پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟ بس دو کیمیکلز۔
ہم اب آتے ہیں‘ اس سوال کی طرف‘ کیا عام انسان اپنا سیروٹونین لیول بڑھا اورآکٹوپامن کم کر سکتا ہے؟ سو فیصد کر سکتا ہے‘ ہمیں پہلے یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی یہ دونوں کیمیکلز کام یابی سے متعلق ہیں‘ ہم جوں جوں کام یاب ہوتے جاتے ہیں ہمارا سیرٹونین لیول زیادہ اورآکٹوپامن کم ہوتا جاتا ہے جب کہ ہار اور شکست کی شکل میں یہ سائیکل الٹ ہو جاتا ہے لہٰذا ہمیں جان بوجھ کر‘ سوچ سمجھ کر اپنی کام یابیاں بڑھانا اور ناکامیاں کم کرنا ہوں گی مثلاً آپ چھوٹی چھوٹی کام یابیوں کی فہرست بنائیں‘ صبح جلدی اٹھنا‘ تیار ہو کر باہر نکلنا‘ کتابیں پڑھنا‘ واک اور ایکسرسائز‘ وقت کی پابندی‘ زیادہ سننا‘ کم بولنا‘ شکر بڑھانا اور شکوہ کم کرنا‘ ناراض گاہک کو راضی کرنا‘ دوسروں کی بدتمیزی برداشت کر لینا‘ صدقہ اور خیرات بڑھانا‘ دائیں جانب چلنا‘ دوسروں کو راستہ دینا‘ خواتین کا احترام کرنا اور لوگوں سے خوش دلی سے ملنا‘ یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے کام ہیں لیکن یہ کام یابیاں ہیں۔
یہ آپ کا سیروٹونین لیول بڑھاتی ہیں اور یہ لیول بڑھتے بڑھتے آپ کو کام یاب لوگوں کی فہرست میں لے آتا ہے اور آپ جلد یا بدیر ٹاپ لابسٹر بن جاتے ہیں اور یوں آپ کے قد کاٹھ‘ خوب صورتی‘ عمر اور دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور آپ اگر یہ عادات نہیں اپناتے تو پھر آپ کا آکٹوپامن لیول بڑھتاچلا جائے گا اور اس کے نتیجے میں آپ کا قد‘ قامت‘ رنگ‘ اعتماد‘ صحت اور تعلقات ہر چیز دائو پر لگ جائے گی لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ روزانہ کم از کم دس بار چھوٹی چھوٹی کام یابیاں حاصل کرتے رہا کریں‘ ان شاء اللہ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔
نوٹ: پشاور کے ایک انتہائی ہمدرد اور دین دار انسان کو کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے 18 لاکھ روپے درکار ہیں‘ آپ عید پر اپنی اولاد کا صدقہ دے کر ان کی مدد فرما دیں۔رابطہ نمبر: +92-3459176270