پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
دو چیفس، کہانی ایک:حفیظ اللہ نیازی
2014 ءسے لگائی آگ، دو چیفس کی تعیناتی میں رکاوٹ نے شعلہ جوالہ بنا ڈالا، بھسم کرنے کو ہے۔ وطن عزیز بند گلی میں، تکلیف دہ، مایوس کُن مقام پر ہے۔ فیصلہ سازوں کی سوچ تک دسترس نہیں، اندازہ، حالات کی سنگینی کی سوجھ بوجھ سے عاری یا نبٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
دس سال سے بمطابق منصوبہ بندی، معاشرے میں مذموم سیاسی مقاصد کی خاطر اداروں، طبقوں کے درمیان ٹکراؤ، ملک دشمن بشمول بھارت مستفید ہو رہے ہیں۔ عمران خان کو کریڈٹ کہ 2014سے دامے درمے مہرہ بنا، 2016-22میں تن من باجوہ پلان کا حصہ تھا۔
ناقابلِ یقین! عمران خان نے مئی 2019میں نامور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ایک جھوٹا ریفرنس دائر کیا۔ ریفرنس سے پہلے اور بعد بذریعہ بیانات اور سوشل میڈیا کردار کشی کی، ستم ظریفی جسٹس قاضی سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کےمطابق اس وقت کھڈے لائن لگے تھے۔ بے شرمی کی انتہا، انکی فیملی کو نہ بخشا، بیوروکریسی کا چارہ بنا ڈالا۔
ایک طرف جسٹس قاضی 5سال اپنی ہی عدلیہ میں ایک عضو معطل تھے تو دوسری طرف عمران خان کا قاضی صاحب نے کچھ بھی تو نہیں بگاڑا تھا۔ اُنکا جرم اتنا کہ اسٹیبلشمنٹ کی غیر قانونی اور ماورائے قوانین حرکات و سکنات پر گرفت کی جرأت کی۔
عاصم منیر کہانی اس سے کہیں زیادہ گھمبیر، ممکنہ سربراہ بننے کے شک پر اُن کیخلاف ستمبر 2022ءسے ملکی طول و عرض میں ’’جہاد اکبر‘‘ کا اعلان کر ڈالا۔ نوٹیفکیشن میں رخنہ ڈالنے کیلئے یکم نومبر کو راولپنڈی GHQ کا لانگ مارچ، کسی سیاسی لیڈر کی صدی کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ مسخرہ پن کہ سب کچھ میر جعفر ٹیم کی ایما پر کر رہے تھے۔ جنرل باجوہ نے جنرل عاصم کو روکنے کی تدبیر، کمال مہارت سے ترتیب دی، اللہ کی تدبیر نے پاش پاش کر ڈالا۔ جنرل باجوہ نے 26نومبر 2018کو ناپ تول کے اعشاری نظام کے مطابق جب ترقی دی تو پُر اعتماد کہ جنرل عاصم بہرصورت 27نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جبکہ جنرل ساحر، جنرل اظہر، جنرل نعمان، جنرل فیض اور جنرل عامر کو 2019 میں ترقی دی تو چشم تصور میں لامحالہ آرمی چیف اپنے 5پسندیدہ میں سے ہی ایک بنتا۔ جوں جوں 29نومبر 2022ءقریب آیا، جنرل باجوہ نے اپنی تدبیر کو تتربتر ہوتے دیکھا تو ایک ہی مطالبہ، (عمران خان سمیت ساری سیاسی جماعتیں متفق) کہ عاصم منیر کے علاوہ کسی اور کو چیف بنا دیں۔
ستمبر 2022ءمیں عمران خان کا پاگل پن اپنے عروج پرجلسے جلوس، لانگ مارچ کی ٹھان لی۔ فرسٹریشن، DESPERATION، ہر صورت جنرل عاصم کی تعیناتی رکوانی تھی۔ دوسری طرف گالم گلوچ بریگیڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم کیخلاف جُت گیا۔ اللہ نے نواز شریف کو چن لیا، اکلوتا ڈٹ گیا۔ کامیابی ملی کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تھی۔تعیناتی رکوانے کیلئے دو واقعات اور بھی۔ ’’جہاد اکبر‘‘ کے سلسلے میں ستمبر اکتوبر میں جلسے اور ان میں لوگوں سے حلف تاکہ راولپنڈی جاکر عاصم منیر کی تعیناتی رکوائی جائے۔
23 اکتوبر کو ارشد شریف کا قتل، ناکام جلسوں میں جوش و خروش پیدا کرنا تاکہ لانگ مارچ بھرپور رہے۔ یکم نومبر 2022کو جب لانگ مارچ شروع کیا تو ناکامی نے منہ چڑایا۔ 3نومبر عمران خان پر قاتلانہ حملہ کروانا پڑا کہ انارکی پھیلے تاکہ مارشل لا کی راہ ہموار ہو ۔ پچھلے 10 سال میں (بشمول 6 سال باجوہ کے) یہ نہ سوچا گیا کہ مملکت کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
آج جس دلدل میں، وجہ قاضی فائز اور عاصم منیر کیخلاف اس وقت کی مہم جوئی جبکہ وہ بقلم خود لاچار اور بے یارو مددگار تھے۔ جسٹس قاضی فائز اور جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے پر اداروں اور وطنی طبقات میں ٹکراؤ بڑھا، آج وطن عزیز تباہی کے دہانے پر ہے۔ مجھے یکسوئی، ’’10اپریل 2022عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی سے بخوبی اندازہ ہو گیا کہ دوبارہ اقتدار میں آنا ناممکن ہے، بڑھتی مقبولیت نے باور کروایا کہ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف رائے عامہ ہموارکی تو ملک ناقابل استعمال رہے گا‘‘۔ چشم تصور میں شیخ مجیب الرحمن اور بھارتی گٹھ جوڑ بھی ہے۔
قطع نظر کہ شیخ مجیب، اندرا گاندھی، حسینہ واجد کس انجام سے دو چار ہوئے۔ عمران خان کی ایسی سوچ امریکہ اور بھارتی سوچ کے عین مطابق ہے۔ خاطر جمع! پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہیں آ سکتی کہ یہ 1971ءنہیں ہے۔ البتہ لوگوں کے جان و مال پر منڈلاتے خطرے، عملی جامہ پہن چکے ہیں۔ عمران خان نے جتنے وار کرنے تھے، کر چکے۔ کیا منہ توڑ جواب دینے کی بھی کوئی ترکیب ہے۔
عمران خان کا اپنے آپکو ’’بطل حریت‘‘ سمجھنا، فراڈ ہے۔ مت بھولیں! 2014ءکے دھرنے، 2016ءلاک ڈاؤن، پیپلز پارٹی اور طاہر القادری کیساتھ فوجی خدمت، مارچ 2018ءمیں زرداری صاحب کیساتھ ایک سٹیج پر، 2018ءسینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی بی ٹیم، ستمبر 2022ءمیں میر جعفر سے ملاقاتیں اور پھر وعدہ میر جعفر کو توسیع، اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی دہلیز پر ماتھا پٹکنا، جمہوریت کی مضحکہ خیز خدمت ہی ہے۔
ایک طرف عمران خان وطن عزیز کو پاش پاش کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، دوسری طرف حالات سے نبردآزما ہونے کیلئے مقتدرہ بھی حکمت عملی سے بانجھ ہے۔ 2سال سےسیاسی فیصلے طاقت کے زعم میں کئے گئے اور ہر فیصلے پر منہ کی کھانا پڑی۔
مقتدرہ نے جو جو تدبیر کی، عمران خان کو مضبوط بنایا، اسکی پبلک سپورٹ بڑھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا قدم اسکو کمزور کر گیا۔ قطع نظر کہ عمران مقبولیت سوشل میڈیا کا طوفان ہے اور بھارت کنٹرول کر رہا ہے۔ پچھلے تین سال جلسے جلوس، لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک، ملک گیر ناکام ہڑتال، عمران خان کی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے کافی ہے۔ عمران خان کا دو چیفس سے جھگڑا ہی تو آج پارلیمنٹ اور عدلیہ کو آمنے سامنے لایا ہے۔ عدلیہ اور مقتدرہ کی ایک دوسرے پر بداعتمادی انتہا پر ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ٹکراؤ کیا رنگ لائے گا۔ اگر عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان معاملہ افہام و تفہیم سے جمہوری اصولوں کےمطابق طے ہو گیا تو عمران پلان کی ایک ناکامی ہو گی۔ خدانخواستہ اسکا حل نہ نکلا تو ملک دشمن افراتفری پھیلانے کیلئے ہمیشہ سے مستعد۔ مسئلے کو حل کرنے کیلئے فہم و فراست تدبر تدبیر درکار ہے۔