معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بہاولپور کے دو بچے
پتا نہیں کیا لکھنا تھا۔ اب کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں کر رہا۔ لاہور کی ایک خبر نے دل ہی اداس کر دیا ہے۔
لاہور میں ایک گھر میں کام کرنے والے دو بچوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ دونوں بچے آپس میں بھائی تھے اور بہاولپور سے لاہور کام کرنے کے لیے لائے گئے تھے۔ ایک کی عمر بارہ اور دوسرے کی چھ سال بتائی گئی ہے۔ ایک بھائی تشدد سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دوسرا زخمی ہے۔ گھر میں پانچ افراد تھے‘ کسی نے ان بچوں کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ سنا ہے تشدد کی وجہ فریج سے بچوں کا مٹھائی نکال کر کھانا بنی۔
بہاولپور سے یاد آیا‘ طارق محمود کی سرگزشت ”دامِ خیال‘‘ پڑھ رہا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ بہاولپور کی ریاست اتنی امیر اور وہاں کا نواب اتنا تعلیم دوست تھا کہ بہاولپور تو چھوڑیں‘ دور دراز کے سینٹرل پنجاب کے کئی اضلاع کے غریب طالب علموں کو سکالرشپ دے کر بہاولپور بلایا جاتا تھا جہاں اُن کے لیے سب کچھ مفت تھا۔ آج اسی ریاست بہاولپور کے بچے دربدر ہوگئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ غربت کے حوالے سے بہاولپور ڈویژن کے اضلاع پنجاب میں پہلے نمبروں میں شامل ہیں۔ اب لاہور‘ کراچی یا اسلام آباد میں آپ کو سرائیکی علاقوں خصوصاً بہاولپور کے لوگ مزدوری کے لیے عام پھرتے ملتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گھریلو کام کرتے ہیں یا پھر سائیکل پر فروٹ سبزی بیچتے ہیں۔ جو علاقے گندم‘ گنے‘ کپاس اور آم کی پیداوار کے لیے مشہور اور ملک کے بڑے حصے کی خوراک کی ضروریات پوری کرتے تھے‘ اب وہاں کی لوگ کھیت چھوڑ کر شہروں کو مزدوری ڈھونڈنے نکل رہے ہیں۔
سوچا گیا تھا کہ جنوبی پنجاب اگر صوبہ بن گیا تو ہر سال تین سو ارب روپے این ایف سی کے ملیں گے جس سے تیرہ چودہ اضلاع کی قسمت بدل جائے گی۔ صوبہ بنانے سے پہلے ہی عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا کہ اب جنوبی پنجاب کی ترقی ہوگی۔ چالیس‘ پینتالیس برس بعد کوئی سرائیکی علاقوں سے وزیراعلیٰ بنا تھا۔ اب شاید اگلے پچاس برس بعد بھی کوئی جنوبی پنجاب سے وزیراعلیٰ نہ بنے کہ سب نے عثمان بزدار کی کارگردگی دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ جس عثمان بزدار کو بہاولپور کے ان دو بھائیوں کی قسمت بدلنے کیلئے لایا گیا تھا‘ وہ اپنے خاندان کے علاوہ گجر اور مانیکا خاندان کی قسمت بدل کر پتلی گلی سے نکل گئے ۔ مزید سنیں‘ سرائیکی علاقوں سے ایک ہی اہم سڑک گزرتی ہے جو (مظفرگڑھ میانوالی) ایم ایم روڈ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ کئی کالمز لکھے‘ عمران خان صاحب سے وزیراعظم بننے کے بعد ریکویسٹ کی کہ اس خونی سڑک پر ہزاروں لوگ حادثات کا شکار ہو چکے ہیں‘ ان پانچ اضلاع سے پی ٹی آئی ہی جیتی ہے‘ عرض کی کہ یہ سڑک بنوا دیں۔ خان صاحب صحافیوں کی موجودگی میں مجھ سے ناراض ہوگئے کہ یہ میرا کام نہیں۔ خان صاحب کا کام صرف ان علاقوں سے ووٹ لینا تھا‘ وہاں کی سڑکیں بنوانا نہیں تھا۔ ان سے پہلے شہباز شریف دس سال وزیراعلیٰ پنجاب رہے‘ مجال ہے کہ ایک اینٹ اس سڑک پر لگائی ہو۔ وزیراعلیٰ بزدار سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: رؤف صاحب مٹھائی تیار رکھیں‘ سڑک پر کام شروع ہورہا ہے۔ چند دن بعد پتا چلا سڑک پر کام کیا ہوتا‘ الٹا وہ سڑک پنجاب سے وفاق کو دے دی گئی کہ آپ سنبھالیں‘ ہمارے پاس پیسے نہیں۔ اللہ بھلا کرے مراد سعید کا کہ مجھے فون کر کے کہا: آپ کی چیخ و پکار کے بعد اب یہاں موٹر وے بنانے لگے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ ہمارے علاقے میں کیونکر ایسا پروجیکٹ شروع ہو سکے گا اور پھر وہی ہوا۔ مراد سعید نے بتایا کہ ہم موٹر وے نہیں بنا سکتے‘ ون وے سڑک بنا دیتے ہیں۔ میں نے کہا: وہی بنا دیں۔ پھر پتا چلا اُس کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ آخر پر کہا: بڑی مشکل سے اٹھارہ ارب روپے پانچ سو کلو میٹر طویل سڑک کی تعمیر کے لیے ملیں گے جس سے سڑک پر مٹی ڈال کر گھڑے برابر کیے جا سکیں گے۔
اندازہ کریں ایک وفاقی وزیر اکیلا اپنے حلقے کے لیے دو سو ارب روپے لے گیا (بشمول کھاریاں اسلام آباد موٹر وے) اور سرائیکی علاقوں کے پچاس ایم این ایز اور سو ایم پی ایز مل کر بھی ایک سڑک کے لیے فنڈز نہ لے سکے۔ ابھی تک اس سڑک پر لوگ حادثات کا شکار ہو رہے ہیں لیکن عمران خان کے جلسوں میں میانوالی‘ بھکر سے مظفرگڑھ‘ لیہ تک لوگوں کا سمندر ہے جو شریک ہوتا ہے۔ مطلب میانوالی ہو یا مظفرگڑھ یا لیہ‘ لوگوں کو فرق نہیں پڑا کہ وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں کوئی ترقیاتی کام ان علاقوں میں نہ ہوا۔ الٹا مجھ سے ناراض ہوئے کہ میانوالی مظفرگڑھ سڑک کی بات ہی کیوں کی۔ لوکل مسائل سے زیادہ ہمیں عظیم قوم بننے کی فکر ہے جو امریکہ سے لڑنے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ جبکہ شریف خاندان باہر سے کسی کو کرسی پر بٹھانے کو ہی تیار نہیں۔
پنجاب کی پسماندگی ملاحظہ فرمائیں۔ آدھا صوبہ اس وقت حمزہ شہباز کا دیوانہ ہے اور آدھا اب عثمان بزدار کو دوبارہ واپس لانے اور وزیراعلیٰ بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔ ذرا اس قوم کی قسمت اور چوائس ملاحظہ فرمائیں۔ ایک طرف بزدار ہیں اور دوسری طرف حمزہ شہباز۔ سوچتا ہوں ہمارے لوگوں کو بیوقوف بنانا کتنا آسان ہے۔ ان کے ذہن میں بس ایک ایسا عظیم مقصد ڈال دو کہ وہ کسی بھی حد تک جانے پر تل جائیں۔ ابھی عمران خان کا پرانا کلپ دیکھ رہا تھا کہ کیسے سری لنکا کے صدر سے ملاقات کے بعد فرمایا کہ اُس نے انہیں مہنگائی کم کرنے کے ایسے گُر بتائے ہیں کہ بس چند دنوں میں مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ اب اسی سری لنکن صدر کو ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور عوام نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ آج کل خان صاحب اسی سری لنکا کے حالات سے ڈرا رہے ہیں جس ملک کے صدر سے وہ بڑی ٹپس لے کر آئے تھے۔
شریف خاندان نے بھی کچھ نہیں سیکھا اور نہ سیکھیں گے کیونکہ وہی پرانی بات کہ ہمارے عوام کو لٹیرا اپنی مرضی کا چاہیے۔ خان صاحب کے حامیوں کو عمران خان دور کی نالائقیوں اور کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ عمران خان اگر ایک سال مزید وزیراعظم رہ جاتے تو اب تک پاکستان عظیم ملک اور قوم بن چکا ہوتا اور امریکہ ہمارے سامنے پانی بھر رہا ہوتا۔ شریفوں کے حامی اس بات پر خوش ہیں کہ یہ خاندان اور اس کے وفادار بیوروکریٹس کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں اور ترقی کرنے کا یہی فارمولا ہے۔ بزدار صاحب نے بہاولپور کے ان دو بھائیوں کی قسمت بدلنی تھی جو لاہور میں مزدوری کرتے گھریلو تشدد کا شکار ہوئے۔ ان بچوں کی قسمت تو نہ بدلی لیکن عثمان بزدار کی اپنی اور ان کے خاندان کی قسمت بدل گئی۔ شریف خاندان پہلے ہی اپنی قسمت بدل چکا تھا۔
بہاولپور کے بھائیوں کے تشدد زدہ جسموں کی تصاویر دیکھ کر مجھے انگریزی ناول ”دی روٹس‘‘ یاد آیا۔ جب افریقہ سے انگریز تاجر مقامی لوگوں کو بندوق کے زور پر پکڑ کر جہازوں میں لاد کر لندن کی منڈیوں میں بولی لگا کر ایلیٹ گوروں کو فروخت کرتے تھے اور پھر ان کی روحوں اور جسموں تک کے مالک ہوتے تھے۔ ان غلاموں میں ایک بچے کا نام کنٹا کنٹے تھا جسے امریکہ لے جایا گیا تھا اور جس کی زندگی پر وہ ناول لکھا گیا تھا۔ بہاولپور کے یہ دو بچے بھی اس ناول دی روٹس کے کردار ”کنٹا کنٹے‘‘ جیسے ہیں جو ماں باپ سے دور لاہور لائے گئے۔ ایسے کئی بچے اپنی غربت کی قیمت شہروں کی ایلیٹ کو اپنی جان دے کر ادا کررہے ہیں۔ کسی دن خبر آ جائے گی کہ ان بچوں کے ماں باپ نے پانچ‘ دس لاکھ لے کر مقدمہ واپس لے لیا ہے۔ یہاں یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور یہی کچھ ہوتا رہے گا۔
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا۔