معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بودرم میں دو دن
بودرم (Bodrum) ترکی کا ایک خوب صورت شہر ہے‘ ایجین سی کے کنارے آباد ہے‘ تین اطراف سے نیلے پانیوں میں گھرا ہوا ہے‘ موسم گرم مرطوب ہے لہٰذا یہ یورپی سیاحوں کے لیے جنت ہے‘ یہ زمانہ قبل مسیح میں ہالی کارناسس (Halicarnassus) کہلاتا تھا‘ موزولس کا مقبرہ اسی شہر میں تھا‘ یہ مقبرہ موزولیم آف ہالی کارناسس کہلاتا ہے اور یہ دنیا کے سات عجوبوں میںچھٹے نمبر پر آتا ہے.
انگریزی زبان میں موزولیم (Mausoleum) کا لفظ مقبرے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس لفظ نے موزولین سے جنم لیا تھا‘ دنیا کے سات عجوبوں میں سے دو ترکی میں ہیں‘ موزولیم آف ہالی کارناسس (Mausoleum of Halicarnassus) اورٹمپل آف آرٹیمس (Temple of Artemis)‘ آرٹیمس کا ٹمپل ایفسس (Ephesus) شہر میں ہے جب کہ موزولیم بودرم میں۔
میں 17 جولائی کو مانچسٹر سے بودرم پہنچا تو مجھے تاحد نظر یورپی سیاح دکھائی دیے‘ روسی خاندانوں سے لے کر امریکی شہریوں تک وہاں ہزاروں گورے دندناتے پھر رہے تھے‘ مانچسٹر سے روزانہ 12 فلائیٹس بودرم آتی ہیں‘ میں جس جہاز میں آیا وہ دُم تک مسافروں سے بھرا ہوا تھا‘ پائلٹ نے ٹیک آف سے پہلے اعلان کیا ’’میں آپ کو چھٹیوں کے لیے بودرم کی فلائیٹ میں خوش آمدید کہتا ہوں‘‘ فلائیٹ اترتے وقت بھی کہا گیا ’’ہیپی ہالیڈیز‘‘ ائیرپورٹ شہر سے دور ہے‘ سارا راستہ سمندر کے کنارے ریزارٹ بنے ہوئے ہیں اور یہ سب مکمل بک تھے۔
مجھے سینٹر میں بوتیک ہوٹل میں جگہ ملی اور وہ پاکستانی روپوں میں ٹھیک ٹھاک مہنگا ہوٹل تھا تاہم وہ بہت خوب صورت تھا‘ پہاڑی پر ٹیرس کی طرح کمرے بنے ہوئے تھے اوردائیں بائیں اوپر نیچے درخت اور بیلیں تھیں‘ درمیان میں سوئمنگ پول تھا‘ گورے سارا دن پول میں نہاتے رہتے تھے یا جسم کو سورج سے سیکتے رہتے تھے اور میں بیٹھ کر کتاب پڑھتا رہتا تھا‘ بودرم میں دو ایکٹوٹیز ہوتی ہیں‘ سیاح سارا دن پول یا سمندر میں نہاتے رہتے ہیں‘ ساحل پر نیم برہنہ لیٹے رہتے ہیں یا پھر کشتیوں میں سوار ہو کر سمندر کی سیر کرتے رہتے ہیں اور شام کے وقت جوں ہی سورج کی شدت کم ہوتی ہے تو یہ نہا دھو کر شہر آ جاتے ہیں۔
بودرم کی سینٹرل اسٹریٹ ساری رات جاگتی ہے‘ پرانی گلیوں‘ محلوں اور ساحل کے کنارے ریستوران‘ کافی شاپس‘ آئس کریم پارلر‘بارز اور کلب ہیں‘ سیاح رات بھر وہاں رہتے ہیں اور دو اڑھائی بجے واپس کمروں میں جا کر سو جاتے ہیں اور اگلے دن یہ ایکٹویٹی دوبارہ شروع کر دیتے ہیں‘ واٹر اسپورٹس کی درجنوں کمپنیاں بھی ہیں‘ یہ بھی سیاحوں کو ہر قسم کی سہولت دیتی ہیں‘ بودرم سے ایفسس ‘ ازمیر‘ سلجوق ‘ کوچا داشی اور پاموک قلعہ روزانہ درجنوں ڈے ٹورز جاتے ہیں‘ قصہ مختصر یہ بہرحال دیکھنے اور جاننے والا شہر ہے۔
بودرم میں ایک زیرآب میوزیم بھی ہے‘ اس میں ڈوبے ہوئے جہازوں کا ملبہ اور باقیات رکھی ہوئی ہیں‘ جہاز زمانہ قدیم میں ڈوبے تھے اور یہ اس زمانے کی طرز زندگی کو ظاہر کرتے ہیں‘ آج سے دو تین ہزار سال قبل لوگ گھڑوں میں پانی بھر کر سفر کیا کرتے تھے‘ جہازوں سے ایسے ہزاروں گھڑے ملے‘ خوراک اور خشک راشن کے جارز بھی تھے‘ جانوروں کی کھالیں اور چمڑے بھی‘ زیورات بھی اور مردوں کی ہڈیاں بھی‘ یہ عجائب گھر قلعے کے اندر قائم ہے اور قلعہ تین اطراف سے ایجین سی میں گھرا ہوا ہے۔
کھڑکیوں‘ جھروکوں اور قلعے کی فصیل سے تاحد نگاہ نیلا پانی دکھائی دیتا ہے‘ دیواریں اور فرش پتھریلے ہیں اور ہر قسم کی شورش کا دفاع کر سکتے ہیں‘ موزو لیم آف ہالی کارناسس سمندر سے تھوڑا سا ہٹ کر گلیوں کے اندر ہے‘ عمارت وقت برد ہو چکی ہے تاہم اس کے آثار بتاتے ہیں یہ کبھی واقعی عجوبہ روزگار ہوتی ہو گی‘ میں گرتا پڑتا اور تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا تو میرے سامنے ٹوٹے ہوئے ستونوں کا کباڑ خانہ بکھرا ہوا تھا‘ کباڑ خانے کے درمیان ایک نئی عمارت تھی اور اس عمارت میں موزولیم کے سکیچ اور اسٹرکچر رکھے ہوئے تھے۔
وہ 136فٹ اونچی دس منزلہ عمارت تھی اور وہ صدیوں تک پہاڑ کی اترائیوں سے سمندر کو دیکھتی رہی لیکن وقت بہرحال وقت ہوتا ہے اور یہ شان دار سے شان دار ترین اور نادر سے نادر ترین چیزوں کی آن‘ بان اور شان بھی نگل جاتا ہے اوروقت اس عجائب کو بھی چاٹ گیا‘میں موزولیم سے واپس آیا تو شام ہو چکی تھی اور سینٹر میں حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی‘ لوگ کندھے سے کندھا جوڑ کر واک کررہے تھے‘ ریستورانوں کے مینیو پڑھتے تھے اور اپنی پسند کے ریستوران میں گھس جاتے تھے‘ ڈنر کے بعد یہ کسی کافی شاپ‘ چائے خانے‘ آئس کریم بار یا ڈسکو کی طرف نکل جائیں گے اور باقی زندگی ناچ ناچ کر گزارنے کی دھن میں مگن ہو جائیں گے اور یہ بودرم کی روایت تھی۔
میں بودرم میں دو دن رہا‘ میں اس دوران کئی مرتبہ یہ بھول گیا یہ شہر ترکی کا حصہ ہے اور ترکی ایک مسلمان ملک ہے‘ ہر طرف یورپ کاا سٹینڈرڈ‘ صفائی اور ولولہ تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہر چیز حلال تھی اور دن میں پانچ وقت اذان کی آواز بھی آتی تھی‘ مسجدیں بھی آباد تھیں‘ شراب خانے بھی کھلے تھے اور کسی کو کسی کے ساتھ غرض بھی نہیں تھی‘ لوگ کھا رہے تھے‘ پی رہے تھے اور ناچ رہے تھے‘ کوئی کسی کو ڈسٹرب نہیں کررہا تھا‘ پورے شہر میں معاشی سرگرمیوں کا دریا بہہ رہا تھا‘ کشتیاں اور ٹیکسیاں چل رہی تھیں۔
ریستوران‘ کافی شاپس اور کلب بھرے ہوئے تھے‘ دکانوں پر رش تھا اور لوگ گلیوں میں بے خوف گھوم پھر رہے تھے‘ سمندر کے کنارے سیکڑوں یورپی خاندان مستقل رہائش پذیر بھی ہیں‘ میں ایسے جرمن خاندانوں سے بھی ملا جو بیس بیس سال سے بودرم میں رہ رہے ہیں اور مزے سے زندگی گزار رہے ہیں‘ جرمنی سے پنشن یا پراپرٹی کا کرایہ لیتے ہیں‘ بودرم میں اپنے ویلا میں رہتے ہیں‘ اپنی کشتی میں سیر کرتے ہیں اور ادنہ اورعرفہ کے کباب انجوائے کرتے ہیں‘ یہ لوگ ترکش زبان تک جانتے ہیں۔
برطانیہ کے لوگ بھی بودرم میں مستقل رہائش پذیر ہیں‘ میں نے ان خاندانوں سے بھی گفتگو سے اندازہ لگایا یہ لوگ موسم‘ لیونگ اسٹینڈرڈ‘ امن وامان اور لوکاسٹ آف لیونگ کی وجہ سے بودرم میں ہیں‘ یورپ میں سردی بہت ہوتی ہے اور یہ مہنگا اور مشینی بھی ہے لہٰذا یہ لوگ بودرم میں آباد ہو گئے‘ دوسرا بودرم سے روزانہ یورپ کی فلائیٹس چلتی ہیں اور یہ لوگ جب چاہتے ہیں پچاس ساٹھ یورو کا ٹکٹ لے کر اپنے شہر کا چکر لگا آتے ہیں‘ یونان کا جزیرہ قوس بودرم سے صرف 20 منٹ کی دوری پر ہے۔
یہاں سے روزانہ فیری چلتی ہے اور یہ سیاحوں کو بقراط کے شہر کی سیر کرا کر واپس لے آتی ہے‘ بقراط (Hippocrates) کا تعلق قوس سے تھا‘یہ دنیا کا پہلا طبی ماہر تھا جس نے روح‘ دماغ اور جسم کو ایک یونٹ قرار دیا تھا‘ اس کا کہنا تھا آپ جب تک کسی بیمار شخص کے جسم‘ دماغ اور روح تینوں کا علاج نہیں کرتے وہ شخص اس وقت تک مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکتا‘ اس نے قوس میں دنیا کا پہلا ایسا اسپتال بنایا جس میں مریضوں کا صرف جسمانی علاج نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کی روح اور دماغ کو بھی ٹھیک کیا جاتا تھا‘ اس اسپتال کے آثار آج تک موجود ہیں‘ میں قوس جانا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے میری فیری مس ہو گئی اور یوں میں نہ جا سکا لیکن ان شاء اللہ اگلی بار چکر لگاؤں گا۔
کوچا داشی (Kusadasi) بودرم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک اور خوب صورت شہر ہے‘ یہ ہنی مون شہر سمجھا جاتا ہے‘ اس میں بھی پہاڑ کی اترائیوں پر سمندر کے کنارے خوب صورت ریزارٹ ہیں‘ انٹرنیشنل بحری جہاز بھی کوچا داشی رکتے ہیں‘ گلیاں بھی قدیم اور پتھریلی ہیں اور گھر پتھر اور پرانی اینٹوں سے بنے ہیں‘ سمندر کے کنارے کافی شاپس اور ریستوران ہیں اور یہ بھی شام کے وقت ٹھیک ٹھاک مصروف ہو جاتے ہیں‘ میں بودرم سے بس کے ذریعے کوچا داشی پہنچا‘ ترکی کی بسیں بہت ہی آرام دہ ہیں۔
سروس بھی اچھی ہے اور یہ وقت کی پابند بھی ہیں‘ بودرم کا سینٹرل بس اسٹیشن ائیرپورٹ جتنا وسیع اور خوب صورت ہے‘ ٹکٹ بورڈنگ پاس جیسے ہیں‘ عمارت میں زیرزمین پارکنگ ہے اور ائیرپورٹ کی طرح ہی شاپنگ ایریا اور کافی شاپس ہیں‘ یہ کسی بھی لحاظ سے بس اسٹیشن دکھائی نہیں دیتا تھا‘ اندر لفٹس بھی چل رہی ہیں اور برقی سیڑھیاں بھی ہیں اور ویٹنگ ایریاز بھی لاؤنجز جیسے ہیں تاہم کوچا داشی کا بس اسٹاف ایوریج تھا‘ واش روم بھی گندے تھے اور ویٹنگ ایریا میں بھی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں‘ ٹیکسی کا نظام دونوں شہروں میں اچھاتھا‘ ڈرائیور میٹر کے ذریعے چارج کرتے ہیں لیکن یہ پٹرول کی قیمتیں زیادہ ہونے اور مہنگائی کی وجہ سے گاڑیوں کے اے سی نہیں چلاتے اور سفر کے خاتمے پر بخشیش کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
مجھے وہاں ایک رات گزارنے کا موقع ملا‘ میں نے سمندر کے کنارے ہوٹل لیاتھا‘ کمروں کا ٹیرس سمندر کی طرف کھلتا تھا اور وہ بہت خوب صورت تھا‘ میں نے وہ شام پرانے شہر کی گلیوں میں گزاری‘ پرانے ریستوران سے کھانا کھایا اور رات گئے تک ساحل کے کنارے ٹہلتا رہا‘ میں نے اگلی صبح سلجوق شہر جانا تھا‘ یہ شہرہزار سال قبل سلجوق حکمرانوں نے آباد کیا تھا‘یہ سلجوق سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا لیکن یہ اب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے‘ جس کی کل آبادی 34ہزار نفوس پر مشتمل ہے تاہم یہ اس کے باوجود سیاحوں کی بڑی ترجیح سمجھا جاتا ہے۔
کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ حضرت مریم ؑکا گھر ہے اور دوسری وجہ ایفسس (Ephesus) شہر ہے‘ حضرت مریمؑ کی زندگی کا آخری حصہ ایفسس شہر میں گزرا تھا‘ آپ ؑ کا گھر آج تک وہاں موجود ہے اور عیسائی اس کی زیارت کو حج قرار دیتے ہیں ‘ میں نے اگلے دن حضرت مریم ؑ کے اس گھر کی زیارت کی جس کی دیواریں برسوں اللہ کی اس نیک اور پاک ہستی کا دیدار کرتی رہیں‘ میں نے حضرت مریم ؑ کے گھر میں کیا دیکھا یہ میں اگلے کالم میں گوش گزار کروں گا۔