معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ہم پاکستانیوں کے بڑے ڈرامے
پرانا جملہ یاد آ رہا ہے‘ اس ملک میں رہنا ہے تو آگاہی کے ” عذاب‘‘ سے بچ کر رہو۔ چیزوں کا علم جتنا کم ہوگا اتنی ہی زندگی آسان گزرے گی۔ آپ پر راز کھلتے جائیں گے تو بے چینی بڑھتی جائے گی۔ ڈپریشن اور غصہ بڑھتا جائے گا کیونکہ آپ بہت کچھ جانتے ہوں گے لیکن کچھ نہیں کرسکیں گے اور یہی چیز آپ کیلئے اذیت کا سبب بنے گی۔ لوگ صحافیوں کو قنوطی سمجھتے ہیں جن کے پاس بتانے کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہوتی‘ ہر وقت مایوسی بھری گفتگو کرتے رہتے ہیں۔اب صحافی کیا کرے‘ اس کا کام ہی خبر لانا ہے۔ صحافی رپورٹنگ کرتے کرتے منفی خیالات کے مالک ہو جاتے ہیں۔
ابھی آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے پاکستان میں تیل‘گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمان پر چلی گئی ہیں۔ ڈالر کا ریٹ روزانہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ جب پاکستان ستر ارب ڈالرز کی چیزیں باہر سے خریدے گا اور تیس ارب ڈالرز کی اشیاباہر بیچے گا تو ہمارا کیا حشر ہوگا؟جب ہر سال ہم دس ارب ڈالرز کی گندم‘ کاٹن‘ چینی‘ دالیں منگوائیں گے تو پھر ڈالر ریٹ اوپر جانے سے ان سب اشیا کی قیمتیں بھی اوپر جائیں گی۔جب پاکستان بیس ارب ڈالرز سے زائد کا پٹرول‘ ڈیزل اور گیس باہر سے ڈالروں میں خریدے گا تو پھر ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے یہ سب چیزیں بھی مہنگی ہوں گی۔ ایک دور تھا کہ پاکستان ستر فیصد سے زائد بجلی پانی سے پیدا کرتا تھا۔ اب الٹ ہوچکا ہے۔ اب زیادہ تر بجلی آئی پی پیز سے بن رہی ہے جو سب تیل اور گیس سے چلتے ہیں۔ جب آپ تیل اور گیس باہر سے خریدیں گے تو ڈالر کا ریٹ ان پر اپلائی ہوگا اور ہر دن کے ساتھ ڈالر ریٹ اوپر جارہا ہے لہٰذا اب ہر دس پندرہ دن بعد گیس‘ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور بڑھتی جائیں گی۔ ایک بات واضح ہے کہ اگر آپ نے مہنگائی کا راستہ روکنا ہے تو آپ کو ڈالر کی اڑان روکنی ہوگی۔ ڈالر کو نیچے لانا ہوگا۔ ڈالر دو تین چیزوں سے رک سکتا ہے۔ آپ ایکسپورٹ بڑھائیں‘ بیرونِ ملک سے پاکستانی آپ کو زیادہ ڈالرز بھیجیں یا پھر آپ امپورٹ بل کو ستر ارب ڈالرز سے کم کر کے چالیس پچاس ارب ڈالرز تک لائیں۔آپ اندازہ کریں‘ دو سال پہلے ہم نے گندم اور چینی ایکسپورٹ کر دی کیونکہ شوگر ملز والوں نے جھوٹ بولا کہ ہمارے پاس فالتو پڑی ہے۔ یوں گندم اور چینی کی نہ صرف شارٹیج ہوگئی بلکہ قیمتیں بھی آسمان پر چلی گئیں جو اب تک نیچے نہیں آسکیں۔ایک غلط فیصلے سے ہم نے چالیس لاکھ ٹن گندم پچھلے سال خریدی تو اس سال تیس لاکھ ٹن گندم باہر سے خریدیں گے۔ شوگر بھی کئی لاکھ ٹن ہم باہر سے خرید چکے ہیں۔ ایک دور تھا ہم کاٹن باہر بھیج کر ڈالرز کماتے تھے لیکن اب ہر سال دو ارب ڈالرز صرف کاٹن منگوانے پر خرچ ہورہے ہیں۔ اندازہ کریں‘ جو ملک زرعی ہونے کے باوجود دس ارب ڈالرز کی گندم‘ کاٹن‘ چینی‘ دالیں وغیرہ ایک سال میں منگوائے گا اس کا کیا حشر ہوگا؟ ہمیں تو الٹا ملک میں وافر گندم‘ چینی‘ دالیں اور کاٹن پیدا کر کے یہ دس ارب ڈالرز کمانے چاہئیں اور اپنے فارن ریزروز میں اضافہ کرنا چاہیے لیکن ہم ٹھہرے سدا کے سیانے‘ لہٰذا ہم نے الٹا دنیا بھر سے قرض مانگ کر دس ارب ڈالر کی یہ چیزیں خریدی ہیں۔اگر دس ارب ڈالرز یہ زرعی ملک کما نہیں سکتا تھا توکم از کم بچا ضرور سکتا تھا۔
ہم نے ایک اور شاندار کام کیا ہے‘ سب زرعی زمینوں پر ہم نے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی ہیں۔وہ زمینیں جو سونا اگلتی تھیں ہم نے ان کے سینے میں سیمنٹ‘ سریا اور بجری ٹھوک دی ہے۔ آم کی پیداوار اس سال پچاس فیصد کم بتائی جارہی ہے۔ ہم نے ملتان‘ شجاع آباد اور خانیوال کے قریب ہزاروں ایکڑ پر آموں کے باغات کاٹ کر ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی ہیں۔ کسان کو ان صنعت کاروں اور تاجروں نے خوب لوٹا۔ آج بھی کسان وہی پرانی دھوتی بنیان پہنے کھیت میں کھڑا ہے اور اس کی حالت نہیں بدلی جبکہ ٹیکسٹائل ملز والوں نے ایک کے بعد پانچ ملیں لگا لیں۔ انہوں نے کسانوں کو کپاس کا اچھا ریٹ نہ دیا۔ باہر سے کاٹن منگوانا شروع کر دی۔ کسانوں کو نئی کاٹن ورائٹی نہ ملی۔ زرعی ریسرچ سنٹرز تباہ ہوگئے۔ زراعت پر ریسرچ نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ یوں گندم‘ کاٹن اور گنے کی کوئی نئی ورائٹی سامنے نہ آنے سے کسان اور ملک‘ دونوں کو نقصان ہوا۔ کسان کی فصل کی فی ایکڑ پیداواری لاگت بجلی اور کھاد کی قیمتوں کی وجہ سے بڑھتی چلی گئی لیکن کھیت کی فی ایکڑ پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہوتی گئی۔ بھارت میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے دو تین گنا بڑھ گئی جس سے نہ صرف بھارت میں خوراک کا مسئلہ پیدا نہ ہوا بلکہ وہاں کا کسان خوشحال بھی ہوا اور حکومت نے سپورٹ بھی دی۔ہمارے ہاں الٹ ہوا۔ کسان کو سب نے لوٹا۔ کھاد فیکٹریوں نے تو حد کر دی۔ جو دل کیا‘ کھاد کا ریٹ لگا لیا اور پھر ہر سال بلیک میں مہنگی بیچنی شروع کر دی۔ اس سال بھی یہی کچھ ہوا۔جب ڈی اے پی اور دیگر کھادوں کی شارٹیج ہوئی تو کسان رُل گئے۔ دیگر زرعی آلات کی قیمتیں بڑھنے سے بھی زراعت کسان کیلئے منافع بخش پیشہ نہ رہا۔ حکومت نے کسانوں کو رعایتیں دینے کے بجائے ہاؤسنگ سیکٹر کو رعایتیں دیں اور ان بلڈرز نے جیبوں میں نوٹ بھرے اور کسانوں سے زمینیں خریدنا شروع کر دیں اور کسان بھی دھڑلے سے بیچتے چلے گئے۔ کچھ دن مزے کیے اور پھر پیسہ ختم ہونے پر شہروں کا رخ کیا تاکہ وہاں مزدوری ڈھونڈ سکیں‘ یوں شہروں کی آبادی بڑھتی چلی گئی۔
اب انکشاف ہوا ہے کہ اس سال گندم کا رقبہ کم ہوگیا ہے اور یوں آنے والے دنوں میں گندم کی قلت ہوگی۔ ابھی سے بیس لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوانے کا ٹینڈر کر دیا گیا ہے۔ پچھلے سال چالیس لاکھ ٹن اور اس سال پہلا آرڈر بیس لاکھ ٹن کا دیا گیا ہے۔اب یہ ملک ایک بڑا پلاٹ بن چکا ہے اور لوگوں کو اب کھانے کیلئے گندم‘ دال‘ چینی‘ دالیں یا کاٹن نہیں چاہیے‘ انہیں ہر قیمت پر ایک پلاٹ چاہیے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت یہ سب چیزیں باہر سے ڈالروں میں خریدے اور انہیں سستے داموں فراہم کرے۔ وہ خود فصل نہیں اگائیں گے بلکہ دھرتی کے سینے میں بیج کے بجائے سریا اورسیمنٹ ڈالیں گے۔
اب ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ یہ عوام کا مسئلہ نہیں۔ حکومت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے کہ زرعی زمینیں بچانے کے بجائے یہ خود بلڈرز اور ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر انہیں کسانوں سے ڈی سی ریٹ پر زمینیں زبردستی بھی خرید کر دیتی ہے جیسے راوی اربن پروجیکٹ لاہور میں کیا گیا‘ جہاں دریائے راوی کی ایک لاکھ بیس ہزار ایکڑ زرعی دریائی زمین دس بارہ بلڈرز کو دے دی۔حکومت کو پتا ہے کہ عوام کو گولی دے کر رکھو لہٰذا باہر سے قرضہ لے لو اور گندم چینی کاٹن اور دالیں خرید کر لے آئو۔ حکمران بھی ووٹوں کے ڈر سے عوام کو برباد کرتے چلے گئے کہ ووٹ خراب نہ ہوں۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ ایک سو ارب ڈالرز سے زائد قرضہ ہوچکا۔ اب دنیا نے بھی ہاتھ جوڑ دیے ہیں کہ معاف کرو۔ہر سال چار ہزار ارب ان قرضوں پر سود دیا جارہا ہے جبکہ کل ٹیکس جو اکٹھا ہوا‘ وہ چھ ہزار ارب ہے۔ اب بتائیں گنجی کیا نہائے اور کیا نچوڑے؟
اب جب آپ دس ارب ڈالرز کی گندم‘ چینی‘ کاٹن اور دالیں باہر سے منگواتے ہیں تو پھر مہنگائی کے ہاتھوں روتے کیوں ہیں؟ سوری میں گندم‘ کاٹن‘ چینی اور دالوں کے چکر میں یہ تو بتانا بھول گیا کہ پٹرول‘ ڈیزل‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں کو ہمارے ہاں پر کیسے لگ گئے۔ انرجی امپورٹ بل کچھ برس میں آٹھ دس ارب ڈالرز سے کیسے بیس بائیس ارب ڈالرز سے بھی اوپر چلا گیا؟ جان کی اماں پائوں تو کچھ عرض کروں کہ یہ بربادی کیسے ہوئی جس کی وجہ سے اب سب رو رہے ہیں؟ یہ سب کرتوت ہمارے اپنے ہیں۔کوئی آسمان سے مخلوق نہیں اتری تھی۔