خالد مقبول ایم کیو ایم کا حصہ کب، کیوں اور کیسے بنے؟

خالد مقبول صدیقی اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 80 کی دہائی کے وسط میں سندھ کے شہر حیدرآباد سے اس وقت کی نئی نئی وجود میں آنے والی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (APMSO) کے کارکن کے طور پر کیا۔

خالد مقبول صدیقی نے جس وقت اے پی ایم ایس او میں شمولیت اختیار کی اس وقت سیاسی اور نسلی تقسیم بہت زیادہ تھی، بعدازاں 1984ء میں خالد مقبول اے پی ایم ایس او کے ایک فعال رکن بن گئے اور پھر انہیں اس گروپ کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا جس نے آگے چل کر مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دیا۔

اے پی ایم ایس او یا ایم کیو ایم کے زیادہ تر ابتدائی رہنما میڈیکل یا انجینئرنگ کالجوں سے آئے تھے جن کا ابتدائی نعرہ ’ناانصافی‘ اور ’کوٹہ‘ کے گرد گھومتا تھا کیونکہ اس وقت ان رہنماؤں کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ لینے اور نوکری کے حصول کے لیے کوٹوں سے متعلق تحفظات تھے۔

ان نعروں نے اردو بولنے والے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اے پی ایم ایس او کو کچھ ہی وقت میں اس حد تک حمایت حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی حریف اسلامی جمعیت طلبہ (IJT) کے لیے گھبراہٹ کے بٹن کو دبا دیا اور یوں اس کی مقبولیت کے ختم ہونے کا آغاز ہوا۔

خالد مقبول صدیقی نے اپنے ابتدائی سیاسی سفر کے دوران کراچی میں ہونے والے فسادات بھی دیکھے اور وہ شروع سے پُرجوش اور بانی ایم کیو ایم کے بہت وفادار تھے جو کہ ہر کارکن کے لیے لازمی عمل بھی ہوتا تھا۔

خالد مقبول صدیقی ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایم کیو ایم کی سرگرمیوں میں اور بھی زیادہ مصروف ہوگئے اور ڈپٹی زونل انچارج بھی بنے۔

ایم کیو ایم نے 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں کلین سویپ کیا اور کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئر منتخب کرائے اور پھر ایک سال بعد 1988ء کے عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔

خالد مقبول صدیقی نے اسی الیکشن میں اپنی انتخابی سیاست کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ پہلی بار انہی الیکشن میں کامیاب ہو کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

ماضی کی مزید بات کی جائے تو 1992ء کے آپریشن میں خالد مقبول صدیقی کو دیگر ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی طرح منظرِعام سے غائب بھی ہونا پڑا تھا۔

بعدازاں خالد مقبول صدیقی دیگر الیکشنز میں بھی منتخب ہوتے رہے اور پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وہ وفاقی وزیر بھی بنے۔

خالد مقبول صدیقی امریکا، لندن اور ایک مرتبہ بھارت بھی جا چکے ہیں۔

اس دوران خالد مقبول میں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہوگئی تاہم علاج کے بعد وہ سیاست میں متحرک رہے۔

22 اگست کے واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بانی سے خود کو دور کرنا شروع کیا اور پھر بعد میں ایم کیو ایم میں مزید ٹوٹ پھوٹ پاک سر زمین پارٹی کے جنم لینے سے ہوئی۔

اس سب کے دوران سب سے بڑا سوال یہ سامنے آیا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کون کرے گا اور اسی درمیان ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ہمدردوں نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول کے درمیان قیادت کے لیے رسہ کشی دیکھی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے ووٹروں اور کارکنوں نے ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی کی صورت میں دیکھی۔

موجودہ صورتحال میں کئی نشیب و فراز دیکھنے کے بعد پھر سے یکجا ہونے والے ایم کیو ایم رہنماؤں میں سے کچھ لوگوں کا سوچنا ہے کہ خالد مقبول کو الیکشن نہیں لڑنا چاہیے بلکہ انہیں ایم کیو ایم کو مزید زیادہ وقت دینا چاہیے۔

واضح رہے کہ خالد مقبول صدیقی 1990ء سے 1993ء، 1997ء سے 1999ء اور 2013ء سے 2023ء تک رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔