معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
جہاں میں تھا
میں نے سیرت النبیؐ کے ایک جلسے میں ایک عالم دین کو تقریر کرتے دیکھا۔ وہ حضور اکرمؐ کی سیرت طیبہ بیان کر رہے تھے۔ ان کی آنکھیں فرط عقیدت سے بھیگی ہوئی تھیں۔ ان کے سامنے ہزاروں کا مجمع تھا۔ عالم دین کے خوبصورت الفاظ اور پرسوز ادائیگی سے سننے والوں پر وجد طاری تھا۔ رات کو میں ایک ریستوران میں کھانے کیلئے گیا تو دیکھا وہ عالم دین اور حضورؐ کے ذکر پر سردھننے والے بہت سے لوگ ابوجہل کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔یہ لوگ بھرپور قہقہوں سے ریستوران کی فضا کو بوجھل کئے ہوئے تھے۔ میں نے جاتی دفعہ ابوجہل کو کھانے کا بل ادا کرتے دیکھا۔
میں ایک مجلس عزا میں بیٹھا تھا ذاکر شہادت امام حسینؓ کا دلدوز سانحہ پورے رقت آمیز لہجے میں بیان کر رہا تھا۔ وہ درمیان درمیان میں اپنے سینے پر دوہتڑ بھی مارتا تھا اور رونے جیسی آواز نکالتا تھا۔ سامعین مسلسل گریہ زاری میں مشغول تھے ان کے سینے ’’غم حسین‘‘ میں پھٹے جا رہے تھے جب ان میں صدمہ ضبط کرنے کی تاب نہ رہتی تو وہ اپنا سر اور اپنا سینہ پیٹنے لگتے۔ اگلے روز میں ایک فلم دیکھنے گیاتو یہ ذاکر گیلری میںشمر کے ساتھ بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا۔
میں ایک سیاستدان کے جلسے میں گیا، وہاں عوام کا ایک جم غفیر تھا جو اپنے مقبول رہنما کی تقریر سننے کے لئے وہاں جمع تھا۔ رہنما عوام کی حالت زار بیان کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ غریب لوگوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے، وہ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں۔ انہیں علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ ان کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کی بچیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہوتے۔ یہ کہتے ہوئے رہنما آبدیدہ ہوگیا اور اس پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ اسے اپنی تقریر روکنا پڑی۔ اس دوران پنڈال’’ رہنما زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ رہنما فرط جذبات سے اپنی تقریر مکمل نہ کرسکا اور اسے ادھوری چھوڑ کر وہاں سے جانا پڑا۔ اسے ویسے بھی جانے کی جلدی تھی کیونکہ شہر کی وہ تمام متقدر شخصیتیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، ایک ڈنرمیٹنگ پر اس کی منتظر تھیں جہاں عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کے ایجنڈے کوحتمی شکل دی جانا تھی۔ میں اپنے ایک محب وطن دوست کے پاس بیٹھا تھا وہ اس بات پر بہت مغموم نظر آ رہا تھا۔ لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ اسے اس بات کا قلق تھا کہ پاکستان میں نافذ ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے لوگ دل برداشتہ ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں بلکہ ان میں سے جو بیرون ملک سیٹل ہوسکتے ہیں، وہ امریکہ برطانیہ میں سیٹل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اس بات پر زیادہ اداس تھا کہ مغربی معاشرے میں رہنے والے پاکستانی اپنے سارے مادی خواب تو ایک نہ ایک دن پورے کر لیتے ہیں لیکن جب ان کی اولادیں خصوصاً بچیاں جوان ہوتی ہیں تو ان پر برا وقت آنا شروع ہو جاتا ہے ۔دوست کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اگر اپنی ایک آدھ نسل کو ’’ڈومیسٹک مارشل لاء‘‘ کے ذریعے (جوان ملکوں میں ممکن نہیں ) اپنی اولاد کی دینی، قومی اور ثقافتی پہچان برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی اگلی نسل کا پاکستان، اپنی زبان، اپنے کلچر اور اپنے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ دوست مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو وقتی آسائشوں کے حصول کے لئے اتنی بڑی قربانی دینے پر تیار ہو جاتے ہیں؟ میں نے اس کی سنجیدگی کو نارملائز کرنے کے لئے لائٹ موڈ میں کہا ’’ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ اگر ان کے پاس امریکی پاسپورٹ ہو گا تو وہ پاکستان کا وزیراعظم بن سکیں گے اگر اور کچھ نہیں تو امریکی یا برطانوی پاسپورٹ ہولڈرز وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے تو بآسانی بن جاتے ہیں یقین نہ آئے تو ہمارے مقتدر طبقے کے پاسپورٹ چیک کر لو‘‘ مگر میرے دوست کو میری یہ ہلکی پھلکی گفتگو بے موقع محسوس ہوئی اور یوں اس کی سنجیدگی برقرار رہی۔ اگلے روز امریکن ایمبیسی کے سامنے سے میرا گزر ہوا تو میرا یہ محب وطن دوست امیگریشن ویزے کے حصول کے لئے لائن میں لگا ہوا تھا ۔میرے ایک انقلابی دوست نے کہا ’’بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے تم اس پر خاموش کیوں ہو ؟‘‘میں نے جواب دیا ’’میں خاموش کہاں ہوں میں تو ایک عرصے سے بلوچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہا ہوں، اکبر بگٹی کے بعد ان کے لیڈروں کے حالیہ قتل پر میں اس درجہ مغموم تھا کہ اس روز کھانا میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا ‘‘۔
دوست نے پوچھا ’’ کیا تم اپنے خالی خولی احتجاج سے مطمئن ہو‘‘میں نے کہا ’’مطمئن تو نہیں ہوں لیکن میں کوئی سیاسی کارکن نہیں ہوں کہ سڑک پر آ کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں‘‘
دوست بولا ’’یہی تو تم لوگوں کا مسئلہ ہے باتیں زیادہ بناتے ہو اور عمل کم کرتے ہو، کل میں ایک بڑے جلوس کے ساتھ وزیراعظم ہائوس کے سامنے مظاہرہ کرنے جا رہا ہوں اگر ہمت ہے تو میرا ساتھ دو‘‘۔
میں نے کچھ لمحے توقف کے بعد کہا ’’ٹھیک ہے میں تیار ہوں گھر سے نکلو تو مجھے ساتھ لےجانا۔‘‘
اگلے روز میں اپنے دوست کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف میرا یہ دوست تھا ’’آئی ایم سوری یار میں تمہاری طرف نہیں آ سکوں گا، میں وزیراعظم ہائوس وزارت کا حلف اٹھانے جا رہا ہوں‘‘ مجھے کسی دن اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا سارے انسان ایسے ہوتے ہیں یا صرف ہم ایسے ہیں؟‘‘۔(قندِمکرر)