کنویں سے اب کون نکالے

کبھی کبھار پاکستان کے حالات دیکھ کر وہ پنڈت یاد آتا ہے جس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منہ سے ہندوستان کی تقسیم کے دن کا اعلان سن کر اسے دور دراز کے مندر سے ایک خط لکھا تھا۔ ہندوستان کے وائسرائے نے جب اعلان کیا کہ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات برطانوی راج کا خاتمہ ہوگا اور اقتدار لوکل لیڈروں کو سونپ دیا جائے گا اور وہ ہندوستان اور پاکستان کی قیادت کریں گے تو سب پنڈت اسی وقت زائچہ بنانے بیٹھ گئے تھے کہ اس دن ان دو ملکوں کا آزاد ہونا کیسا ہوگا۔ کیا یہ مناسب تاریخ ہوگی؟ اس روز جنم لینے والے ممالک کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس پنڈت نے دونوں ملکوں کا زائچہ بنایا تو اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ اس کے حساب میں وہ نحس دن تھا اور اگر اِس دن تقسیم پلان پر عمل کیا گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی۔ اس پنڈت کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا کہ اسے خبردار کر سکے کہ وہ اس تاریخ کو چند دن آگے پیچھے کرے کیونکہ اس روز آسمان پر ستاروں کی چال بہت خطرناک ہوگی جس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ اس خط کا ذکر تقسیم ہندوستان پر لکھی گئی بہت خوبصورت کتاب Freedom at Midnight میں تفصیل سے دیا گیا ہے۔ اس پنڈت کا کہنا تھا کہ ان تاریخوں پر ہی ان ملکوں نے جنم لیا تو اس خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا‘ بڑے پیمانے پر قتل وغارت ہو گی‘ ان ملکوں میں جنگیں ہوں گی‘ غربت اور سیلاب آئیں گے۔ اب یہ نہیں پتا کہ وہ خط ماؤنٹ بیٹن تک پہنچا یا نہیں لیکن برسوں بعد اس کتاب کے دو مصنفین نے اس خط کی تفصیلات ڈھونڈ نکالیں۔ ویسے اگر یہ خط زائچے سمیت لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک پہنچ بھی جاتا تو اس نے کون سا اسے سنجیدہ لے کر تاریخ بدل دینی تھی۔ سات سمندر پار سے جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی طرف سے لڑنے والا ماؤنٹ بیٹن ان باتوں پر بھلا کب یقین کرتا۔ وہ ایک عملی اور جدید دنیا کا بندہ تھا جہاں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسے ایک مندر کا پنڈت بتائے کہ اس نے کس تاریخ کو برطانیہ کا تاج ہندوستانیوں کے سر پر رکھنا ہے۔
اگرچہ بعد کے واقعات نے اس پنڈت کے خدشات کو درست ثابت کیا اور چودہ اگست کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے جن میں لاکھوں لوگ مارے گئے‘ لاکھوں نے نقل مکانی کی‘ اس خطے میں دونوں ملکوں نے تین بڑی جنگیں لڑیں‘ خون بہا‘ زلزلے‘ سیلاب الگ اور پھر ان ملکوں میں سیاسی استحکام نہ آسکا۔ پاکستان میں مارشل لاء کی ابتدا ہوئی تو بھارت میں اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا کر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں اور مخالفوں کا جینا حرام کر دیا۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان اور ہندوستان مشکلات میں گھرے رہے اور آپس کی لڑائیوں نے دونوں ملکوں کے لیے مسائل ہی پیدا کیے‘ جو ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ ہندوستان اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ ان کے ہاں وزیراعظم نہرو سولہ‘ سترہ برس تک زندہ رہے اور ملک کی جمہوری بنیادیں مضبوط کر گئے۔ شروع کے برسوں میں بہت اہم فیصلے وہ کر گئے جنہوں نے اس نئی ریاست کو بہتر آغاز فراہم کیا جبکہ پاکستان اس مقابلے میں خوش قسمت نہ رہا کہ قائداعظم زیادہ دیر زندہ نہ رہے۔ سال بھر زندہ رہے بھی تو سخت بیماری کا شکار رہے‘ پھر پہلا وزیراعظم قتل ہوا‘ ایک اور وزیراعظم پھانسی لگا‘ کئی وزیراعظم عدالتوں سے نااہل ہوئے یا انہوں نے جیلوں اور جلاوطنی کی سزائیں بھگتیں۔ ایک سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ ایک لمبی تاریخ ہے ہماری اور آپ کو کوئی ایسا دور نہیں ملتا جب ہم لوگوں نے سکون کا سانس لیا ہو اور کسی نے ایک دوسرے سے نہ پوچھا ہو کہ اب پاکستان کا کیا بنے گا؟ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ ایک فقرہ سننے کو ملا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں‘ اب کیا ہوگا‘ ہمارا کیا بنے گا؟ آج بھی وہی بحران ہے اور حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ کہیں سے کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ رہا۔ جو بھی قیادت بڑے وعدوں اور دعووں کے ساتھ آتی ہے وہ پہلے سے زیادہ نالائق اور نکمی نکلتی ہے۔ عمران خان کو اتنی محبت اور اہتمام سے لایا گیا تھا کہ اب جنرل باجوہ تک کہنے لگے ہیں کہ وہ سب جنرل بھی عمران خان کے فین تھے کہ بس ابھی خان وزیراعظم بنا نہیں اور دیکھنا ملک کیسے ترقی کرتا ہے‘ ہمیں پر لگ جائیں گے۔ باجوہ صاحب کے انٹرویو کی تفصیلات پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس وقت کی فوجی قیادت کتنی پُرجوش تھی کہ بس پاکستان نے اپنی منزل پا لی تھی‘ بس عمران خان کو وزیراعظم بننے کی دیر تھی۔ اب ذرا دوبارہ اس دور کی فوجی قیادت کے خان بارے خیالات پڑھ لیں یا خان صاحب کے ان کے بارے خیالات پڑھ لیں تو اندازہ ہوگا ملک کن ہاتھوں میں تھا۔
عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کا انٹرویو پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو رنگ روڈ سکینڈل میں میرے خلاف گمراہ کیا گیا تھا۔ آپ کو لگے گا یہ معمولی بات کہاں سے اس کالم میں آگئی۔ یہ چھوٹی ہی سہی لیکن معمولی بات نہیں۔ مطلب ستر سال کی عمر میں بھی انسان کو باتوں سے گمراہ کیا جا سکتا ہے اور وہ گمراہ ہونے والا بندہ بھی کوئی عام بندہ نہ ہو‘ ملک کا وزیراعظم ہو۔ اگر ملک کے وزیراعظم کو اتنی آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بات اس کا قریبی دوست کہہ رہا ہو تو پھر آپ اس ملک کی قسمت اور لیڈروں کی دانش اور میچورٹی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان کو ہٹا کر جو سیاسی ہیرے لائے گئے‘ وہ ملک کو اس بند گلی میں لے آئے ہیں کہ اب انہیں ملک چلانا چھوڑیں‘ خود بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ وہ مسلسل ایک گلی میں پھنستے جارہے ہیں۔ وہ جتنا آگے جارہے ہیں وہ گلی اتنی ہی تنگ اور تاریک ہوتی جارہی ہے۔ وہ جو بھی اقدامات کرتے ہیں‘ اُلٹا ان کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ عمران خان کو ہٹانا جہاں ایک غلط فیصلہ تھا کہ انہیں اپنی سیاسی موت مرنے دیتے تو اگلا الیکشن وہ جیت سکتے تھے یا پھر عدم اعتماد کی تحریک کے فوراً بعد الیکشن کراتے تو بھی ان کے چانسز تھے کہ پاور میں آجاتے‘ لیکن شہباز شریف پر شیروانی پہننے کی خواہش غالب آگئی۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ شہباز شریف کی وہ جو مِتھ تھی کہ وہ بہت اچھے منتظم ہیں‘ وہ ٹوٹ گئی۔ اس وقت اگر نواز لیگ تمام تر خرابیوں کے باوجود شاہد خاقان عباسی کو آگے کر دیتی اور شریف خاندان خود بھی تھوڑا صبر کر لیتا‘ باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ نہ بنتا تو بہت فرق پڑتا۔ مجھے یاد ہے پچھلے سال انہی دنوں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی صحافیوں سے پہلی ملاقات میں‘ میں نے یہی بات شہباز شریف کو کہی تھی کہ سر باپ بیٹے کا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننا جو‘ خود منی لانڈرنگ مقدمات میں ضمانت پر ہیں‘ وہ نہ ان کی پارٹی کو ہضم ہوگا نہ ہی لوگوں کو اور اُلٹا عمران خان کو ہی فائدہ ہوگا۔
پھر اسحاق ڈار بھی لندن میں اس طرح صبر نہ کر سکے جیسے شہباز شریف سے صبر نہیں ہورہا تھا۔ وہ بھی لندن سے دوڑے اور مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر وزیر خزانہ بن کر آئی ایم ایف کو دھمکیاں دینے لگ گئے۔ یوں وہ ڈیل جو فائنل ہونے کے قریب تھی وہ آج تک نہیں ہوئی۔ اکانومی تباہ ہوگئی۔ ڈار صاحب کی اَنا کی قیمت پورا ملک ادا کر رہا ہے۔ اب اوپر سے سپریم کورٹ نے حکومت کی ساری پلاننگ پر پانی پھیر دیا ہے۔ پنجاب میں الیکشن آٹھ اکتوبر کے بجائے 14مئی کو کرانے کا حکم دیا ہے۔ اب شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کی حالت اس بندے جیسی ہو چکی ہے جو کسی کنویں میں گر گیا تھا۔ پورا گائوں سارا دن نکالنے کی کوشش کرتا رہا‘ شام تک اسے نہ نکال سکے تو اس بندے نے کنویں کے اندر سے گالیاں دے کر کہا: اوئے نالائقو مجھے کنویں سے نکالتے ہو یا میں خود کسی طرف منہ کر جائوں۔