معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اب کس کی منجی ٹھوکنی ہے؟
شہباز گل کی ہسپتال سے آنے والی ویڈیوز نے سب کو افسردہ کیاہے۔ان کے مخالفین خوش ہیں۔ رعایت گل صاحب نے بھی کسی کے ساتھ روا نہیں رکھی تھی‘ رعایت اب ان کے مخالفین بھی نہیں کررہے‘لیکن جب کوئی بندہ تکلیف میں ہو تو اس کو طعنے مارنے چاہئیں یا ہمدردی کے چند بول نہیں بول سکتے تو چپ رہنا چاہئے؟
میں اگر کبھی ہمدردی نہیں دکھا پایا تو کوشش کی کہ اپنے کالموں‘ٹوئٹس یا ٹی وی شوز میں طعنوں یا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام بھی نہ کروں۔ آپ یقین کریں کہ ان کیلئے دعا کی کہ اے اللہ انہیں اس مشکل سے نکال اور ہمیں خود اس طرح کے سلوک اور اذیت سے بچا۔ ہم پر رحم فرما۔شاید پہلے میں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین رکھتا تھا لیکن پھر کرما کے بارے میں پڑھا کہ اگر آپ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں تو وہ نیکی آپ کی طرف پلٹ کر آتی ہے۔ اگر آپ دوسروں کے ساتھ برا کرتے ہیں تو وہ برائی بھی آپ کی طرف لوٹ کر آتی ہے۔ کرما کہتا ہے آپ دوسروں سے انتقام یا انہیں نقصان پہنچانے والی سوچ سے باہر نکل جائیں۔ اگر آپ خوش قسمت ہیں تو وہ بندہ آپ کی آنکھوں کے سامنے سزا بھگتے گا اور اگرآپ کے سامنے نہ بھی ہوا تو تسلی رکھیں وہ بھگتے گا۔ آپ خود کو نہ جلائیں نہ اپنی راتوں کی نیندیں خراب کریں۔میں خود اب بہت احتیاط کرتا ہوں کہ میرے کسی ایکشن سے کسی کے خلاف کچھ برا تو نہیں ہورہا جسے میں اپنی بہت بڑی کارکردگی سمجھ رہا ہوں؟ ہر وقت ذہن میں یہی رہتا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دی جائے ورنہ بھگتنا پڑے گا۔
شہباز گل سے یقینا بہت بڑے بلنڈرز ہوئے ۔ شاید جس تکلیف سے وہ گزر رہے ہیں انہیں خود بھی اس کا اندازہ ہوگا۔انسان سے بڑا اپنا جج کوئی نہیں۔ میں لاکھ انکار کرتا رہوں‘ خود کو بہادر ثابت کرتا رہوں کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ فرق پڑتا ہے‘کال کوٹھری میں سب اپنا سخت احتساب کرتے ہیں کہ کہاں اور کیوں غلطیاں ہوئیں اور انسان انہیں نہ دہرانے کا عزم کرتا ہے۔ یہ اور بات کہ وہ نئی غلطیاں کرتا ہے اور پھر پھنس جاتا ہے۔اس وقت پی ٹی آئی کے حامیوں پر مشکل وقت آیا ہوا ہے اور ان کا مذاق نواز لیگ کے حامی اڑا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہی پی ٹی آئی کے لوگ نواز لیگ اور پی پی پی پر مشکل وقت کو انصاف اور احتساب کہہ کر پکارتے تھے۔ اس وقت دنیا جہاں کے مذاق اور گالی گلوچ کی جاتی تھی۔ خود عمران خان کو اس وقت اپنے مخالفوں سے نمٹنے کیلئے سعودی‘ چینی اور روسی نظام کے تحت وہاں کے حکمرانوں کو ملے ہوئے بے پناہ اختیارات درکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے پاس وہ پاورز ہونی چاہئیں کہ جسے چاہیں لٹکا دیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اگر عدالتوں نے ان کے سیاسی مخالفوں کو ریلیف دیا بھی تو انہوں نے عدالتوں پر چڑھائی کر دی۔ وہ بار بار انہی عدالتوں پر حملہ آور ہوتے رہے جو آج ان کے پارٹی کے لوگوں کو مشکل وقت میں ریلیف دے رہی ہیں۔ اُس وقت یہی عدالتیں تحریک انصاف کے حامیوں کو بری لگتی تھیں۔اُس وقت کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں پانچ ہزار بندے کو لٹکا دیا جائے یا گولی مار دی جائے تو ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ یقینا جب پی ٹی آئی کے وزیر پانچ ہزار لوگوں کو مارنے کی بات کرتے تھے تو ان میں ان کی اپنی پارٹی یا حکومت کے لوگ شامل نہیں تھے۔ مگر چھ ماہ میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ وہی پی ٹی آئی جو مخالفوں کیلئے دہشت کی علامت تھی آج خود خوفزدہ ہے۔وہی بات کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ہوا کسی کی نہیں ہوتی‘ اس کا رخ کسی وقت بھی بدل سکتا ہے‘ سرد ہوا کسی وقت گرم بھی ہوسکتی ہے‘لیکن حکمران کوئی بھی ہوں وہ یہ بات نہیں سمجھتے۔ نہ عمران خان وزیراعظم بن کر سمجھ سکے اور نہ ہی اس وقت شہباز شریف سمجھیں گے۔ اگر حکمران جماعت میں کسی کو احساس ہوا ہے کہ یہ سب غلط ہورہا ہے تو وہ سعد رفیق ہیں جنہوں نے اسمبلی میں ایک اچھی تقریر کی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ پہلے ہم جیل جاتے تھے یا بھیجے جاتے تھے مخالف پارٹی خوش ہوتی تھی‘ لیکن سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وہ ہرگز خوش نہیں ہیں۔ یہ ایک سیاسی ذہن کی سوچ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو انصاف ضرور کرنا چاہیے‘ انتقام نہیں لینا چاہیے۔
پاکستانی تاریخ میں ایسی انتقامی کارروائیاں عام ہیں۔ کون سا دور ہے جس میں مخالفین کا حشر نشر نہ کیا گیا؟ایوب خان کے دور میں گورنر نواب آف کالا باغ کی داستانیں شاید آج کی نسل نہ جانتی ہو کہ اُن کے دور میں مخالفین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا۔ بھٹو صاحب کا دور بھی سیاسی مخالفین کیلئے بدترین تھا۔ کون سا سیاسی مخالف تھا جسے انہوں نے جیل میں نہ ڈالا اور ان کے ساتھ برا سلوک نہ کیا گیا‘ لیکن ان کے افسوسناک انجام کی وجہ سے ان کے دور کی یہ بدترین مثالیں اب بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ ضیا الحق نے تو سب حدیں کراس کیں اور جہاں بھٹو کو پھانسی لگائی وہیں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ورکرز کو بھی پھانسیاں لگائیں۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں کئی جوانیاں ختم ہو گئیں۔ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے‘ یہ بدترین دور تھا جو سب نے بھگتا۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو نوازشریف خاندان کو نشانے پر رکھ لیاتو جواباً شریف خاندان نے ججوں کو فون کر کے زرداری اور بینظیر کو سزائیں دلوائیں۔ عمران خان جب شریف خاندان کے خلاف ابھرے تو ان کے خلاف بدترین میڈیا کیمپین شروع کرائی گئی۔ ان کی بیوی جمائما خان اور ان کی ساس مسز گولڈ سمتھ پر مقدمے درج کرائے گئے۔
اگر عمران خان کی کتاب پڑھیں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ عمران خان نے وزیراعظم بن کر جو کچھ شریف خاندان اور نواز لیگ کے خلاف کیا اور پوری پارٹی جیل میں ڈالی‘ اس میں ان کا اپنا ذاتی غصہ بھی شامل تھا۔ مشرف دور میں بھی یہی کچھ ہوا جب سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈال کر انہیں مشرف کے ساتھ ملایا گیا۔ بلاشبہ سیاستدانوں کی کرپشن اور لوٹ مار اپنی جگہ تھی‘ لیکن اگر وہ کرپٹ تھے تو سب مشرف کی حکومت میں وزیر کیسے لگ گئے؟ مطلب ایشو کرپشن نہیں تھا۔
صرف آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کسی سے بدلا یا انتقام نہ لیا۔ ان کے دور میں کسی پر مقدمے نہ بنے نہ جیل میں ڈالا گیا۔نواز شریف کا تیسرا دور بھی اس حوالے سے بہتر رہا لیکن عمران خان پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے لہٰذا انہوں نے اسے موقع جانا اور فرنٹ فٹ پر کھیلا کہ سکور سیٹل کرو۔انہیں چاہئے تھا کہ وہ نیب اور ایف آئی اے کو آزادنہ کام کرنے دیتے۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو روز وزیراعظم آفس بلا کر سیاستدانوں اور صحافیوں کی فہرستیں نہ دیتے کہ انہیں دہشت گردی یا غداری کے مقدمات بنا کر گرفتار کرو۔ یہ تو بشیر میمن تھا جو ڈٹ گیا ورنہ ایف آئی اے کا سربراہ تو نوکری کیلئے سب کچھ کرتا ہے۔ عمران خان بھی اس مائنڈ سیٹ کا شکار ہوئے جو بھٹو صاحب کا اپنے آخری دنوں میں بن گیا تھا کہ میں جو چاہوں کروں ‘ ادارے میرے ساتھ ہیں۔ بھٹو صاحب یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ فوج کے پاس ان کے علاوہ کیا آپشن ہے؟ عمران خان بھی یہی سمجھتے اور بولتے تھے کہ میرے علاوہ کیا آپشن ہے ؟اگلوں نے بھٹو صاحب کے علاوہ بھی اچھا برا آپشن ڈھونڈ لیا اور عمران خان کا بھی ڈھونڈھ لیا۔
ہم خود کو ناگزیز سمجھنے والے بھول جاتے ہیں کہ حکمرانی آزمائش ہوتی ہے انعام نہیں۔ یہ بات نہ بھٹو کو سمجھ آئی‘ نہ عمران خان کو اور نہ اب شہباز شریف کو سمجھ آئے گی۔ہم سب کے اپنے اپنے ظالم اور اپنے مظلوم ہیں۔ پہلے عمران خان کو ساتھ ملا کر نواز لیگ کی منجی ٹھوکی گئی‘ اب نواز لیگ کو ساتھ ملا کر عمران خان کے ساتھ وہی سلوک کیا جارہا ہے ۔ یہی اوقات ہے‘ یہی استعمال ہے عمران خان اور نواز شریف کا۔