شیخ حسینہ واجد نے مستعفی ہونے کے بعد بھارت جانے کا انتخاب کیوں کیا؟

سابق بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا 15 سالہ دور اقتدار حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ختم ہوگیا۔

عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد وہ اپنی بہن کے ہمراہ فرار ہو کر بھارت پہنچ گئی ہیں، جہاں لندن میں سیاسی پناہ ملنے تک قیام پذیر رہیں گی۔

حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونےکے بعد بنگلا دیشی آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب ملک میں عبوری حکومت بنائی جائے گی۔

بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق بنگلا دیش سے فرار ہونے والی 76سالہ حسینہ واجد کا C-130 طیارہ شام تقریباً ساڑھے 5 بجے بھارت پہنچا جہاں نئی دہلی سے 30 کلومیٹر دور غازی آباد کی ہندون ایئر فورس بیس پر انہوں نے بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول سے ملاقات کی۔

بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق حسینہ واجد کا طیارہ جوں ہی بھارتی فضائی حدود میں داخل ہوا بھارتی فضائیہ اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس طیارے کی نقل و حرکت کو زیر نگرانی رکھا۔

ذرائع کے مطابق طیارے کو بھارتی فضائیہ کے C-17 اور C-130J سپر ہرکولیس طیاروں کے قریب اتارا گیا۔

شیخ حسینہ کا دورِ اقتدار
شیخ حسینہ واجد بنگلا دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے پہلی بار بنگلا دیش کے دسویں وزیر اعظم کی حیثیت سے 1996 سے 2001 تک خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد جنوری 2009 سے 5 اگست 2024 تک بنگلا دیشی وزیر اعظم کا منصب سنبھالہ۔

اس طرح 20 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ اسی سال چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں جبکہ حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ان کی حکومت نے بنگلادیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔

شیخ حسینہ واجد نے مستعفی ہونے کے بعد بھارت جانے کا انتخاب کیوں کیا؟
اہم بات یہ ہے کہ بھارت حسینہ واجد کا ایک اہم حامی رہا ہے اور اس نے دونوں ممالک کے درمیان کئی سالوں میں باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات کو فروغ دیا ہے۔

بنگلا دیش کی 4 ہزار کلومیٹر طویل سرحدیں بھارت کی کئی شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ بھارتی ریاستیں گزشتہ کئی دہائیوں سے عسکریت پسندوں کی بغاوتوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ نتیجتاً، ڈھاکا کی ایک دوستانہ حکومت نے ان حفاظتی مخمصوں کو حل کرنے میں اپنا حصہ ڈالا اور ان کی دیکھ بھال کی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بنگلا دیش میں بھارت مخالف عسکریت پسند گروپوں کو حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے حزب اختلاف کی تمام تر مخالفت کے باوجود بھی ڈھاکا اور دہلی کے درمیان مضبوط تعلقات کا مسلسل دفاع کیا ہے۔

مزید برآں، بھارت جنوبی ایشیا میں بنگلا دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی بن گیا ہے۔ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان عوامی لیگ کی حکومت کے دوران 1971 سے 1975 اور پھر 1996 اور 2009 سے 2024 تک کئی معاہدے ہوئے۔

ان میں دریائے گنگا کے معاہدے سے لے کر دونوں ممالک کے درمیان زمینی سرحد اور بس سروس شروع کرنے تک کے اہم معاہدے شامل ہیں۔

بنگلا دیش بھی بھارت کی طرح ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن کر ابھرا ہے۔۔