ترکوں کی محبت کا جواب دیں

آٹھ اکتوبر 2005ء کا دن پاکستان کیلئے قیامت بن کر آیا۔ اُس دن ترکی میں پاکستانی ڈپلومیٹ امجد مجید عباسی مقررہ وقت سے پہلے ہی سفارت خانے پہنچ گئے تھے کہ پاکستان سے زلزلے کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ٹی وی لگایا تاکہ وہ زلزلے سے ہونے والی تباہی کا اندازہ لگا سکیں۔ تب تک صرف اسلام آباد سے خبریں آرہی تھیں‘ وہاں ایک ٹاور گر گیا تھا۔ دیگر علاقوں میں ہونے والی تباہی کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ تبھی اُن کے انٹرکام کی بیل بجی۔ آپریٹر نے بتایا کہ ترکی کے وزیراعظم آفس سے فون ہے۔ رجب طیب اردوان تب ترکی کے وزیراعظم تھے۔ یہ فون ترکی کے وزیراعظم آفس کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے تھا۔ اس نے مجید عباسی سے کہا کہ وزیراعظم طیب اردوان نے انہیں آپ تک یہ پیغام پہنچانے کو کہا ہے کہ انہیں پاکستان میں زلزلے کا پتا چلا ہے‘ جس پر وہ افسردہ ہیں۔ مزید یہ کہ آپ ان کا یہ پیغام حکومتِ پاکستان کو پہنچائیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں ترک قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ ڈی جی نے مزید بتایا کہ وزیراعظم اردوان کی ہدایت پر ایک کارگو جہاز امدادی سامان سے لاد دیا گیا ہے‘ آپ اپنی حکومت سے رابطہ کرکے طیارے کی لینڈنگ کی اجازت دلائیں۔ جونہی ہدایات موصول ہوں گی‘ طیارہ اڑان بھر لے گا۔ یہ پیغام دے کر ڈی جی نے فون بند کردیا۔
دوسری طرف جذبات سے لبریز ڈپلومیٹ ہاتھ میں فون پکڑے یہی سوچتا رہا کہ کیسے ترک وزیراعظم نے زلزلے کے فوری بعد ہی ذاتی دلچسپی لے کر امدادی سامان کا بندو بست بھی کر دیا۔ ابھی تو خود پاکستانیوں کو اندازہ نہ تھا کہ زلزلے نے کیا تباہی مچائی تھی اور یہاں ایک برادر اسلامی ملک نے امدادی سامان کا جہاز بھی تیار کر دیا تھا۔ ترکوں کا اس گھڑی بھیجا گیا یہ پیغام ایک غیرمعمولی بات تھی جسے وہ ڈپلومیٹ پوری عمر نہ بھلا سکا۔ اس ڈپلومیٹ نے وزیراعظم طیب اردوان کا یہ پیغام اپنے سفیر کو دیا۔ انہوں نے یہ پیغام پاکستان کے فارن آفس کو بھجوا دیا۔ جونہی حکومتِ پاکستان نے ترکی کی یہ پیشکش قبول کی‘ ترکی سے امدادی سامان سے لدے جہاز پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے۔ ایک کے بعد دوسرا جہاز سامان سے بھرا پاکستان کی طرف اڑ رہا تھا۔ صرف سامان نہیں بلکہ جیوجیکل انجینئرز اور ڈاکٹروں کی امدادی ٹیمیں بھی ساتھ بھیجی گئیں۔ ترکش ڈاکٹروں نے یہاں فوراً فیلڈ ہسپتال کھول کر زخمیوں کا علاج شروع کر دیا اور انجینئرز نے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا تاکہ ملبے میں پھنسے لوگوں کو بچایا جا سکے۔
اُدھر انقرہ میں ہزاروں ترکوں نے پاکستانی ایمبیسی کا رُخ کر لیا تاکہ وہ پاکستانیوں کے ساتھ مشکل کی اس گھڑی میں یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔ جوں جوں زلزلے سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات سامنے آرہی تھیں‘ ترکی میں غم اور دکھ کی کیفیت بڑھ رہی تھی۔ ترکی میں پاکستانی سفارتخانے کا رخ کرنے والوں میں سکولوں کے بچے بھی شامل تھے‘ وہ بھی گہرے افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ انہیں پتا ہے جب ترکی میں خلافت ختم ہوئی تھی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے ان کی بہت مدد کی تھی لہٰذا آج دکھ کی گھڑی میں وہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ تحریکِ خلافت میں دکھائی گئی محبت کا جواب دیں۔ سفارتخانے آنے والے خالی ہاتھ نہیں تھے۔ وہ اپنے ساتھ کمبل‘ رضائیاں‘ گرم کپڑے‘ جیکٹیں‘ کھانے پینے والی اشیا اور دوائیوں کے پیکٹس اٹھائے ہوئے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ سب چیزیں نئی تھیں۔ کوئی سکینڈ ہینڈ یا استعمال شدہ چیز نہ تھی۔ جلد ہی پاکستانی سفارتخانہ ان امدادی اشیا سے بھر گیا۔ پاکستانی سفارتخانے کے پاس اتنی زیادہ امدادی اشیا کو پاکستان بھیجنے کے وسائل نہ تھے۔ اس پر ترکی کی ریڈکراس تنظیم سے رابطہ کیا گیا۔ ترکش ریڈکراس خود بھی امدادی سامان ٹرکوں میں بھرکرایران کے راستے پاکستان بھیج رہی تھی۔ انہوں نے سفارتخانے سے سب سامان اٹھایا اور ایک ایک چیز ایران کے راستے پاکستان پہنچا دی۔ ترکوں کا یہ جذبہ اور امداد صرف چند دنوں تک محدود نہ رہی بلکہ یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا جس دن ترکش عورتوں اور بچوں نے پاکستانی سفارتخانے کو وزٹ نہ کیا ہو۔ روزانہ سفارتخانے کا عملہ ان خوبصورت لیکن غمزدہ چہروں کا استقبال کرتا اور ان کے جذبات دیکھ کر جب وہ شام کو گھر لوٹتا تو ان کی اپنی آنکھیں سوجی ہوتی تھیں۔ ہر ترک کی آنکھ میں آنسو ہوتے تھے کہ پاکستان میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور تباہی مچ گئی تھی۔ ہر آنکھ سے درد جھلک رہا ہوتا تھا۔ ان سب ترکوں میں دو چیزیں مشترک تھیں۔ ایک تو ہر آنکھ بھرائی ہوئی ہوتی تھی اور دوسرے ان کے اندر یہ احساس تھا کہ شاید انہیں مصیبت کی اس گھڑی میں جتنا کچھ کرنا چاہیے‘ وہ اتنا نہیں کرپا رہے۔ کئی ترک خواتین نے تو اپنے زیوارت تک اتار کر وہاں ایمبیسی میں عطیات کے طور پر جمع کرائے جبکہ سینکڑوں ترک بچوں نے اپنے جیب خرچ بینکوں میں جا کر ریلیف فنڈ کیلئے جمع کرائے جن میں زیادہ تر سکے تھے۔
ایک واقعہ‘ جس نے سب کو متاثر کیا‘ وہ ایک بوڑھی ترک عورت سے متعلق تھا جو اپنے ساتھ ایک بڑا بیگ لائی تھی۔ پاکستانی ایمبیسی کے افسران کے سامنے وہ بڑا بیگ کھولا گیا تو بچوں کے سویٹرز‘ اونی جرسیوں اور سکارف سے بھرا ہوا تھا جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے دن رات لگا کر بنائے تھے۔ اسی دوران ایک دن افسوس ناک خبر انقرہ پہنچی کہ ترکی کے وہ انجینئرز جو پاکستان میں ریلیف ورک کیلئے موجود تھے‘ ان میں سے تین ورکرز کے خیمے کو بری طرح آگ لگ گئی تھی‘ جس سے وہ جل گئے تھے اور ان کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ ترک حکومت نے فوری طور پر اپنی ایئر ایمبولینس پاکستان بھیجی اور ان کو واپس لے جا کر ان کا علاج شروع کیا گیا۔ جب وہ ایئر ایمبولنس ایئرپورٹ پر اتری تو ڈپٹی ہیڈ مشن امجد مجید عباسی وہاں رات دو بجے موجود تھے تاکہ ترکوں کو احساس ہو کہ ان کی قربانی کی پاکستان کو کتنی قدر تھی؛ تاہم ان میں سے دو انجینئرز کی جان نہ بچائی جا سکی۔
بعد میں ان ترک ہیروز کو حکومتِ پاکستان نے اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا۔ انقرہ میں پاکستان حکومت کی ہدایت پر ریلیف فنڈ اکاؤنٹ کھولا گیا جس میں چالیس لاکھ ڈالرز اکٹھے ہوئے جبکہ استنبول میں اس سے بھی ڈبل ڈالرز اکٹھے ہوئے تھے۔ ترکش خواتین نے اپنے زیوارت تک اس فنڈ میں جمع کرائے اور کہا کہ وہ اس لیے اپنے زیورات جمع کرانے آئی ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا اور پڑھا ہے کہ تحریکِ خلافت کے دنوں میں ہندوستان کی مسلمان عورتوں نے بھی ان کی مدد کیلئے اپنے زیورات تک اتار کر ترکی بھیجے تھے۔ ہم اس عظیم قرض کو لوٹانے کیلئے آج اپنے زیورات دینے آئی ہیں کہ عورت کیلئے زیور سے زیادہ کوئی اہم چیز نہیں ہوتی۔ ترکوں کے گھروں اور بڑی عمارتوں کے باہر یکجہتی کیلئے پاکستانی جھنڈے اور بینر ہر طرف دیکھے جا سکتے تھے۔ ترکوں نے ایمبیسی جا کر تعزیت والی کتاب پر اپنے اتنے جذبات کا اظہار کیا کہ کتابیں کم پڑ گئیں۔
آج وہی ترک مشکل اور مصیبت میں ہیں۔ ترکیہ غریب ملک نہیں‘ غیرت مند قوم ہے۔ وہ اپنا اور اپنے شہریوں کا خیال رکھ سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم آج ان ترکوں کی وہ محبت لوٹا سکتے ہیں جو انہوں نے 2005ء کے زلزلے کے دنوں میں دکھائی تھی؟ جیسے ترک 1922ء میں ہندوستانی مسلمان عورتوں کے زیوارت کو نہیں بھولے تھے تو آج 2023ء میں ہم پاکستانیوں کو بھی 2005ء میں ان ترک خواتین کے جذبات کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے پاکستانی سفارتخانے میں کھڑے ہو کر اپنے زیورات گلے سے اتار کر یہ کہتے ہوئے جمع کرائے تھے کہ ہم سب اپنے اسی نوے سالہ پرانے قرض لوٹانے آئی ہیں۔