بینڈ باجہ، بارات

جب جولائی 1998 ء میں اسلام آباد آیا تھا اُس وقت کے اور آج کے سیاسی حالات دیکھوں تو یقین نہیں آتا کہ اتنے برسوں میں کتنا کچھ بدل گیا ہے۔ میرے اسلام آباد آنے کے ایک سال بعد ہی پرویز مشرف سیاسی سین پر نمودار ہوچکے تھے۔ لگتا تھا اُن کا اقتدار پاکستان پر سے کبھی ختم نہیں ہوگا۔ کل ہی ایک دوست نے مشرف کی قبر کی تصویر شیئرکی ہے۔ قبر کنارے افسردہ صہبا مشرف موجود تھیں۔2000ء میں نواز شریف پہلے جدہ اور پھر لندن گئے۔ بیس بائیس برس بعد‘ آج کل پھر اس طرح سزا یافتہ اور لندن میں ہیں جیسے اُس وقت تھے۔خیر یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ عمران خان جو اُس وقت سیاست میں نئے نئے داخل ہورہے تھے وہ اِس ملک کے نہ صرف وزیراعظم بنیں گے بلکہ سزا یافتہ ہو کر 2023ء میں جیل میں ہوں گے جبکہ انوارالحق کاکڑ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے ہوں گے۔
عجیب اتفاق ہے‘ شریف خاندان کسی صورت شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے پر راضی نہیں تھا۔ صدر اسحاق خان سے لے کر مشرف تک سب نے یہ کوششیں کر کے دیکھ لیا‘ کیونکہ انہیں لگا نواز شریف وزیراعظم میٹریل نہیں ہیں۔ شریف خاندان کا کہنا تھا کہ وہ بزنس میٹریل بھی نہیں ہیں۔ اگر شہباز شریف کو ملک چلانے کے لیے دے دیا تو پھر ان کا کاروبار کون چلائے گا؟ یوں جو خاندانی کاروبار نہیں چلا سکتا تھا ملک اس کے حوالے کر دیا گیا۔ جنہوں نے 1990 ء کے الیکشن کے بعد یہ سوچ کر پہلے محمد خان جونیجو کو مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹوایا اور پھر نگران وزیراعظم مصطفی جتوئی کا راستہ روک کر نواز شریف کو وزیراعظم بنوایا تھا وہ کچھ عرصے بعد خود ہی اپنی غلطیوں پر پچھتا رہے تھے اور انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کیا کریں۔ اس لیے صدر اسحاق خان نے میاں شریف کو یہی کہا تھا کہ سُنا ہے آپ کا چھوٹا بیٹا زیادہ سمجھدار ہے۔
شہباز شریف اگرچہ وزیراعظم نہ بن سکے تھے یا خاندان نے نہیں بننے دیا لیکن ان کی تقدیر میں وزیراعظم بننا لکھا تھا لہٰذا جو کوششیں تیس سال سے ہورہی تھیں وہ آخر پوری ہوئیں اور وہ پچھلے سال بڑے ہنگاموں اور شورشرابے کے بعد وزیراعظم بن گئے‘ جس وقت وہ ایف آئی اے کے ملزم کے طور پر ضمانت پر تھے۔
شہباز شریف کی قسمت کا دروازہ وزیراعظم عمران خان کی جلد بازی نے کھولا۔اگرچہ ہمارے ہاں کسی بھی لیڈر میں جمہوریت یا جمہوری ذہن بہت کم ہوتا ہے‘ شاید کسی وزیراعظم میں کچھ جمہوری رویہ تھا تو وہ یوسف رضا گیلانی تھے۔ پارلیمنٹ کی جتنی بے توقیری وزیراعظم نواز شریف اورپھر عمران خان کے دور میں دیکھی وہ کسی اور دور میں نظر نہیں آئی۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ آٹھ آٹھ ماہ تک اسمبلی نہیں گئے۔ ایک سال وہ سینیٹ میں نہ گئے۔ اب بتائیں گھر کا مالک اپنے گھر ایک سال نہ جائے اس گھر کی کیا حالت ہوگی؟ وہی حالت پارلیمنٹ کی ہوئی جہاں وزیراعظم جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا نواز شریف کا اپنی تقریروں میں گلہ بنتا نہیں تھا کہ آپ لوگ تو کہتے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب میں نے قدم آگے بڑھایا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ ان کا اشارہ شاید بارہ اکتوبر کی طرف تھا۔ اب سوال یہ ہے جو آپ کا گھر تھا‘ آپ کی سیاسی طاقت تھی‘ وہاں تو آپ جاتے نہیں تھے تو اس گھر کے افراد کیسے آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے جنہوں نے آپ کی شکل ایک سال بعد دیکھی تھی؟
چلیں ایک دفعہ ہوگیا جس کی سزا آپ نے بھگت بھی لی۔ مزے کی بات ہے نواز شریف نے 2013ء میں سے دوبارہ وہیں سے شروع کیا جہاں وہ 1999ء میں چھوڑ گئے تھے۔ نہ صرف وہ پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے بلکہ وہ چار سو دن ملک سے باہر سیر سپاٹوں میں مصروف رہے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے انجام کیا ہونا تھا؟ اب وہ چوتھی دفعہ پھر وزیراعظم بننے کے امیدوار ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو تین وزیراعظم ہی پاپولر رہے ہیں۔ بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان۔ بھٹو نے اگر ایوب خان کے زوال سے سبق نہ سیکھا تو نواز شریف نے بھٹو اور عمران خان نے نواز شریف سے نہ سیکھا۔ شاید یہ انسانی مزاج ہے کہ ہم سمجھتے ہیں جو غلطیاں ہم سے پہلے والے لوگ کررہے تھے وہ ہم نہیں کریں گے یا ہم سمجھ لیتے ہیں کہ خدا نے ہمیں کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم کچھ خاص لوگ ہیں۔ ہم ہم ہیں‘ ہم وہ نہیں جو ہم سے پہلے تھے۔ ہم سب کنٹرول کر لیں گے۔
اگر آپ 1998ء کے بعد خود کو اس ملک کے لیے ناگزیر سمجھنے والوں پر نظر دوڑایں تو آپ حیران ہوں گے کہ ان سب کے بغیر ملک چل رہا ہے‘ دنیا چل رہی ہے۔پرویز مشرف قبر میں جا سوئے تو نواز شریف سزا یافتہ ہو کر لندن جا بیٹھے‘جبکہ عمران خان اس وقت اٹک جیل میں ہیں۔ملک پھر بھی چل رہا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ ملک کی جو حالت ہوچکی ہے اس کا چلنا نہ چلنا برابر۔ سوال یہ ہے جن لوگوں کے ہاتھوں میں آپ لوگوں نے اپنی تقدیر دی انہوں نے جوابا ًکیا کیا ؟ نواز شریف جو کام تین دفعہ نہیں کرسکے وہ چوتھی دفعہ کر لیں گے؟ ان پانچ برسوں میں نواز شریف میں ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ وہ اب کی بار اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے ؟میری رائے نواز شریف بارے آپ سب پہلے سے جانتے ہیں کہ چوتھی دفعہ موقع ملا تو وہ پھر تین سال بعد وزیراعظم ہاؤس سے سیدھے جیل اور پھر وہاں سے لندن جائیں گے۔ انسانی عادتیں بڑی مشکل سے جاتی ہیں۔
نواز شریف کو بڑے مواقع ملے تھے وہ پارلیمنٹ‘ وزیراعظم ہاؤس اور اپنی گورننس کو بہتر کرسکتے تھے۔ بھٹو کے بعد انہیں بہت پاورز ملیں لیکن وہ ان پاورز کو ہر حکمران کی طرح اپنی ذات‘ خاندان یا دوستوں کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔عمران خان بارے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تو بھٹو اور نواز شریف سے زیادہ سپورٹ انجوائے کی اور اس بات کی گواہی اسلام آباد کا ہر صحافی یا اینکر دے گا‘ جس نے خان صاحب کے دور کو قریب سے رپورٹ کیا ہے۔ پہلی دفعہ دیکھا گیا کہ سب اداروں نے انہیں کھل کر سپورٹ دی۔ ان کے سیاسی مخالفوں کا مکو ٹھپ دیا گیا۔ انہوں نے جس بندے پر انگلی رکھی اگلے دن وہ جیل میں تھا۔ میڈیا میں کسی نے چوں کی تو اسے وہیں چپ کرا دیا گیا۔اگرچہ خان صاحب نے الیکشن جیت کر بنی گالہ سے اچھی تقریر کی تھی لیکن اپوزیشن نے اگلے دن ہی انہیں اس راہ پر ڈال دیا جس پر وہ اپنا راستہ گم کر بیٹھے اور وزیراعظم ہاؤس کی بجائے اٹک جیل جا پہنچے۔
خان صاحب جب پہلی دفعہ وزیراعظم کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں خطاب کرنے لگے تو اپوزیشن نے بولنے نہ دیا۔ خان صاحب ہمیشہ اپنے انٹرویوز میں گلہ کرتے رہے کہ انہیں تقریر نہ کرنے دی گئی اور یہیں سے وہ اپنا راستہ کھوٹا کر بیٹھے۔ انہوں نے جو کچھ سوچا تھا وہ سب ان دو تین گھنٹوں میں بدل گیا۔وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ انہیں ٹریپ کیا جارہا ہے۔ وہ ٹریپ ہوئے۔ وہ بھی نواز شریف کی طرح مڑ کر اسمبلی سے الرجک ہوئے۔ انہیں اسمبلی سے آخر اتنی چڑ ہوگئی کہ انہوں نے وہ اسمبلی ہی برطرف کر دی جس نے انہیں وزیراعظم بنایا تھا۔ صدر فاروق لغاری کے بعد وہ دوسرے اس پارلیمنٹ کے ممبر تھے جنہوں نے اس گھر کو گرایا جس گھر کے وہ سربراہ چنے گئے تھے۔ لغاری صاحب نے اپنی پارٹی لیڈر بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی تھی تو خان صاحب نے اپنی حکومت ہی توڑدی اور پارلیمنٹ بھی۔کہتے ہیں غلطی کبھی اکیلی نہیں آتی‘پوری بارات ساتھ لے کر آتی ہے۔ بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان کے عروج و زوال پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگاحکمران کیسے اپنے بینڈ باجہ اور بارات سمیت بلنڈرز مارتے ہیں اور کمال یہ کہ اپنے عروج پر مارتے ہیں۔