اک گناہ اور سہی !

میں ’’اپنی وفات‘‘ پر تین چار کالم پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ میں آج پھر فوت ہو چکا ہوں ، میں رات کو بھلا چنگا سویا تھا صبح میری بیوی نے حسب معمول جگانے کی کوشش کی اور میں ٹس سے مس نہ ہوا تو اس نے مجھے جھنجھوڑا اور جھنجھوڑنے کے باوجود جب زندگی کی کوئی رمق مجھ میں نظر نہ آئی تو اس نے ایک دلدوز چیخ ماری اور پھر میری جیب میں موجود پیسے نکال لئے اس کے بعد اس نے میرے سرہانے دھرے میرے موبائل فون کو اپنے قبضے میں لیا اور میرے میسجز دیکھنے لگی اس پر میں بے چین ہو گیا اور لپک کر اس سے فون چھیننے کی کوشش کی مگر میں تو وفات پا چکا تھا ،میرا جسم بے حس و بے حرکت تھا میری وفات بہت انوکھی قسم کی تھی سب کچھ دیکھ رہا تھا ، سن رہا تھا مگر اپنا ردعمل نہیں دے سکتا تھا ۔اس دوران میری بیوی نے میری جیب سے نکالے ہوئے پیسے گنے میرے موبائل کے سارے میسجز سنے اور دیکھے پھر الماری کا تالا کھولا اور مال مسروقہ الماری کی ایک دراز میں رکھ کر دوبارہ اسے مقفل کر دیا ۔

اس کے بعد اس نے ایک بار پھر ایک دلدوز چیخ ماری اور غم آلود آواز میں بچوں کو پکارا ’’بچو تمہارے فادر کی ڈیتھ ہو گئی ہے ‘‘ میں لٹی گئی میں برباد ہو گئی ، حالانکہ لوٹا تو میں گیا تھا، اپنی اماں کی آواز سن کر بچے دوڑے دوڑے آئے اور اپنی اماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، اس کے بعد لواحقین کو فون پر اطلاع دی جانے لگی مہمانوں کے آنے سے پہلے میری بیوی نے سوائے ٹی وی لائونج اور ڈرائنگ روم کےسارے کمرے مقفل کر دیئے اور قیمتی چیزیں ،ڈیکوریشن پیسز وغیرہ ایک کمرے میں رکھ کر تالا لگا دیا ۔سب سے پہلے میرا ایک دور دراز کا رشتے دار روتا پیٹتا آیا اور مجھ سے لپٹ گیا مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی اس کے کپڑوں کی سخت بدبو اور اس کی دلی خوشی کی لہروں سے مجھے سخت غصہ آ رہا تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے ایک بھاری رقم مجھ سے ادھار لی ہوئی تھی اور میری بار بار یاد دہانی کے باوجود واپس دینے کا نام نہیں لے رہا تھا اب اس کی خوش دیدنی تھی کہ رقم کی واپسی کا کوئی سوال ہی نہیں رہاتھا۔

کل گرمی بہت تھی چنانچہ برف کے تین چارتودے میرے ارد گرد رکھ دیئے گئے لاحول ولا مجھے برف کے ہالے میں پرونے کی بجائے کمرے کا اے سی تیز کیا جا سکتا تھا مگر کفایت شعاری بھی تو کوئی چیز ہے ۔چند گھنٹوں کے بعد عزیز واقارب اور دوست جمع ہوگئے تھے الحمدللہ ان میں سے کئی ایک کی زبان سے اپنے لئے پہلی بار کلمہ خیر سنا ،اب غسل دینے کی نوبت آئی پیدائش کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب مجھے نہانے کی لذت کا ادراک ہوا تاہم غسل دینے والے کو خاصی محنت کرناپڑی !

تدفین کے فوراً بعد منکر نکیر آ گئے اور سوالات پوچھنا شروع کر دیئے خداکا شکر ہے کہ مجھے جواب یاد تھے ورنہ علامہ طاہر القادری کو کینیڈا سے بلانا پڑتا جو اپنے مریدوں کی وفات پر ان کی قبر کےسرہانے کھڑے ہو کر پرچہ آئوٹ کر دیتے ہیں اور اپنے مرحوم مرید کو ساتھ ساتھ بتاتے جاتے ہیں کہ اب اس سوال کا یہ جواب اور اس سوال کا یہ جواب دو ،میں نے ان کی اس نوع کی ویڈیو خود دیکھی ہوئی تھی تاہم اللہ کا شکر ہے کہ علامہ صاحب کو زحمت دینے کی نوبت نہیں آئی۔اب اس سے اگلا مرحلہ جزا یا سزا کاتھا جس سے حساب کتاب دائیں بائیں کاندھے پر بٹھائے گئے فرشتوں کی لکھت پڑھت پر منحصر تھا ،ذہن میں یہ خیال آیا تو غالب کا یہ شعر بھی ذہن میں در آیا؎

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

سچی بات یہ ہے کہ اللہ بہت غفور رحیم ہے ورنہ بائیں بازو والا فرشتہ بہت محنتی تھا اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا ابھی وہ میرا ایک گناہ بھی مکمل طور پر لکھ نہ پاتا تھا تو دوسرے گناہ کی باری آ جاتی تھی دائیں بازو والا فرشتہ چین کی بانسری بجاتا رہتا تھا مگر میں نے ابھی عرض کیا کہ اللہ کی ذات بہت رحیم و کریم ہے ۔

قبر میں استراحت کرتے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مجھے ساتھ والی قبر سے آواز آئی اسلام علیکم قاسمی صاحب آ گئے نا آپ بھی ہمارے ساتھ بالآخر، مجھے اس کا لہجہ بہت برا لگا مگر وہ کہہ رہا تھا آپ میڈیا والے بھی دوسرے خدائوں کی طرح خود کو خداسمجھتے ہیں ،سیاست دانوں ،حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقوں سے زیادہ عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان طبقوں کی ایسی تیسی کرکے آپ عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ نہائے دھوئے ہیں، اب آ گئے نا آپ بھی چھ فٹ قبر میں اس وقت آٹھ بجے ہیں اب ٹی وی پر اپنی نشریات شروع کرکے دکھائیں اور جو جی میں آئے وہ ذرا بول کر تو دکھائیں ،آپ دوسروں سےحساب مانگتے رہتے تھے اب آپ کو حساب دینا ہوگا تب میں سمجھ گیا کہ اس معصوم کا اشارہ ان غریب صحافیوں کی طرف نہیں جنہیں صرف چند ہزار تنخواہ ملتی ہے اور وہ بھی کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی بلکہ یہ صاحب گنتی کے چند لوگوں کی رعونت کا حساب ان سب کارکنوں سے مانگ رہے ہیں جنہیں آفس سے باہر بہت کچھ اور آفس کے اندر جو کچھ سمجھا جاتا ہے اس سے صرف یہ خود واقف ہیں۔

میں یہ کالم لکھ کر یعنی اپنی وفات کا فرضی اور بے ہودہ سا تذکرہ کرکے اپنی ’’دلہن‘‘ کے پاس گیا اسے یہ کالم دکھایا اور کہا اے میری پیاری زوجہ یہ کالم ایک دفعہ پڑھ لو اگر کسی جملے پر اعتراض ہے تو میں وہ کاٹ کر اشاعت کے لئے بھیج دیتا ہوں ‘‘ اس نیک بخت نے محبت سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا یہ کالم ایسے ہی بھیج دیں مجھے پتہ ہے آپ نے آج تک نہ سچ بولا ہے اور نہ کبھی سچ لکھا ہے ،مجھے پتہ ہے آپ کا کالم لیٹ ہو رہا ہے ایڈیٹر انتظار کر رہا ہوگا جلدی سے بھیجیں ایک گناہ اور سہی ؟اور پھر اس نے بہت محبت کی نظروں سے مجھے ایسے دیکھا کہ اس بار مرنے کو نہیں سر پیٹنے کو جی چاہا !