ایک انوکھا شخص جس کا نام قمر ریاض ہے !

ایک زمانہ تھا کہ ’’معاصر‘‘ کا دفتر پرانی انارکلی کی ایک قدیم عمارت میں ہوتا تھا، اس عمارت میں چند دفاتر تھے اور باقی فلیٹ اور گھر تھے ،جن میں بعض بہت ممتاز شخصیات بھی رہتی تھیں ،میرے دفتر میں داخل ہوتے ہی استقبالیہ تھا جس میں چند کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور ایک کونے میں میری سیکرٹری کی ٹیبل تھی، اس سے آگے دوسرا کمرہ میرا آفس تھا جہاں میں کام کے علاوہ لکھنے پڑھنے کے دوسرے کام بھی کرتا تھا !

اور یہ 2005ء کی بات ہے جب ایک روز میری سیکرٹری نے مجھے انٹرکام پر اطلاع دی کہ سر ایک ’’منڈا‘‘ آپ سے ملنے آیا ہے ۔میں نے اسے ڈانتے ہوئے کہا’’منڈا‘‘ نہیں کہتے لڑکا کہتے ہیں ،نوجوان کہتے ہیں، سیکرٹری نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے کہا سر وہ ’’منڈا‘‘ اپنا نام قمر ریاض بتاتا ہے اور جب یہ ’’منڈا‘‘ میرے کمرے میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک سانولا سلونا خوبصورت خدوخال کا حامل ’’ منڈا‘‘ میرے سامنے کھڑا تھا، وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور چند منٹ کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ لڑکا شعر کہتا ہے یا شعر کہہ سکتا ہے اور میرے یہ دونوں اندازے درست نکلے کیونکہ وہ شعر کہتا بھی تھا اور شعر کہنے کا سلیقہ بھی جانتا تھا تاہم ابھی اس میں وہ پختگی نہیں آئی تھی جو بعد میں اس کے ہاں بتدریج دکھائی دی، دورانِ گفتگو مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ان دنوں یہ سوچ رہا ہے کہ اسے ملازمت کرنی چاہئے یا کسی چھوٹے موٹے بزنس سے کاروبارِ زندگی کا آغاز کرنا چاہئے ۔

اس واقعہ کے تین برس بعد قمر ریاض سے میری ملاقات شارجہ کےایک مشاعرے میں ہوئی، صدارت میری تھی اور یہاں قمر ریاض اپنی شاعری سے سامعین کی داد دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہا تھا ،موصوف مسقط سے بطور شاعر مدعو کئے گئے تھے جہاں وہ روزی روٹی کمانے جا چکے تھے پھر اس کے بعد یوں ہوا کہ مجھے اس نوجوان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا پتہ چلا کے نوجوان صرف بہت عمدہ شاعر ہی نہیں بہت اعلیٰ درجے کا انسان بھی ہے، ہر ایک کی عزت کرتا ہے اور محبت کا عالم یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے مرد وزن میں کوئی تفریق نہیں کرتا ۔اس کی محبت میں کمی بیشی کے حوالے سے خواتین میں باہمی رنجش تو ہو سکتی ہے لیکن مرد دوستوں کو کبھی یہ شکایت نہیں ہوئی یہ ان سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور سب کا ادب کرتا ہے، جن کا ادب نہیں بھی کرتا ذکر ان کابھی بہت ادب سے کرتا ہے مثلاً ایسے کہ ارشد صاحب کبھی مجھے بہت اچھے لگتے تھے ان کی بہت عزت کرتا تھا مگر انہیں قریب سے دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ میں غلطی پر تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کہ آخر میرے دوست رہے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پر بھی وہ ان کے نام کے ساتھ صاحب لگانا نہیں بھولتااور جمع کا صیغہ ہی استعمال کرتا ہے۔

اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے وہ محبت کی ساری حدیں پھلانگ چکا ہے اور اس کی محبت کی ایک نشانی وہ پندرہ لاکھ روپے کی لاگت سے شائع شدہ میری ’’پکٹورئیل بائیو گرافی ‘‘ ہے جس کی تیاری پر اس نے دو سال دن رات محنت کی اور میرے شباب کے زمانے سے اب تک کے تمام مراحل کی تصاویر مہنگے ترین آفسیٹ کاغد اور نصیر بلوچ صاحب کے بین الاقوامی معیار کے پریس سے کافی ٹیبل بک سائز پر شائع کی۔ یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے کسی اور معنی میں کہا ہو کہ ’’جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں‘‘ مگر قمر ریاض کی محبت کچھ ایسی ہی والہانہ ہوتی ہے، اس نے سالانہ ’’عطاالحق قاسمی ادبی و صحافتی ایوارڈ‘‘ کا اجرا بھی کیا جس کی حامل شخصیات کو ایک لاکھ روپے نذرانہ بھی پیش کیا جاتا تھا چنانچہ پہلا فکشن ایوارڈ اسد محمد خاں کو پیش کیا گیا جس کے لئے وہ بطور خاص کراچی سے لاہور تشریف لائے، شاعری میں ظفر اقبال نے اس ایوارڈ کو عزت دی اور کالم نگاری میں یہ ایوارڈ جاوید چودھری کو پیش کیا گیا تاہم مجھے اپنی اس قدر عزت افزائی گراں گزرنے لگی اور میں نے بہت مشکل سے ڈانٹ ڈپٹ اور پیارے سے یہ سلسلہ بند کرایا ۔

اور یہی قمر ریاض جو 2005میں سوچ رہا تھا کہ اسے روزی روٹی کے لئے کیا کرنا چاہئے، مسقط چلا گیا اور وہاں شاید ماربل کی ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی اور اب ماشااللہ وہ خود ایک فیکٹری اونر ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ ماربل کی تلاش میں وہ ملکوں ملکوں کا سفر کرتا ہے مگر وہ شاعری اور دوستوں کو نہیں بھولا بلکہ اس کی یہ محبت روز افزوں ہے تاہم قمر ریاض کی زندگی کے حوالے سے یہ چند باتیں ہیں جو میں بتا سکا ہوں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو شاید کسی ’’مناسب‘‘ موقع پر بیان کروں اور ہاں آخر میں ایک بات جو اگر بیان نہ کرتا تو اپنے ایک نادیدہ محسن سے ناانصافی ہوتی اور وہ یہ کہ قمر ریاض کے علاوہ ان بے شمار دوستوں کی محبت جو وہ میرے لئے اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اپنی جگہ مگر ایک دوست جو مجھے پہلی بار ملے مجھ سے اپنی محبت کے حوالے سے سب کو پیچھے چھوڑ گئے، موصوف میرے پاس آئے اور کہا سر کیا آپ کو اندازہ ہے میں آپ سے کتنی محبت کرتا ہوں ؟مجھے اندازہ تو ہر گز نہیں تھا مگر میں نے مروتاًکہا ،جی مجھے اندازہ ہے، بولے میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنا سارا وقت آپ کے ساتھ گزاروں ،میں نے کہا مجھے خوشی ہو گی ۔کہنے لگے ’’ بس پھر ٹھیک ہے آپ آئندہ جب بیرونِ ملک مشاعروں میں جائیں تو مجھے ساتھ رکھا کریں۔‘‘ مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ عقیدت مند عزیر احمد کے ہاتھوں مارا جائے گا ۔آخر میں قمر ریاض کی شاعری سے ایک غزل بطور نمونۂ کلام

موسمِ وصل کے امکان میں رکھے ہوئے ہیں

کچھ حسیں لوگ مِرے دھیان میں رکھے ہوئے ہیں

کون کیا سوچتا، کیا کرتا ہے کیسے جانیں؟

کچھ الگ سلسلے اِنسان میں رکھے ہوئے ہیں

صُوفی جس مستی میں تُو ناچتا ، اتراتا ہے

رقص یہ سب ، مِرے وجدان میں رکھے ہوئے ہیں

شعر سن کر مِرے اُس شوخ نے جو پھول دئیے

میں نے وہ چُوم کے گلدان میں رکھے ہوئے ہیں

اِس لئے چاہتا ہوں تُجھ پہ نچھاور ہونا

عِشق نے فائدے نُقصان میں رکھے ہوئے ہیں

میں بچھڑنے کا جو سوچوں تو لرز اُٹھتا ہوں

ہِجر کے خوف مری جان میں رکھے ہوئے ہیں

پچھلی بارش میں جو بھیگے تھے، وہ جُوتے تیرے

اب بھی کیچڑ سے بَھرے! لان میں رکھے ہوئے ہیں

وہ اگر مجھ سے گُریزاں ہے تو میں نے بھی قمرؔ

فیصلے آخری اِعلان میں رکھے ہوئے ہیں