آخر صرف عوام ہی قربانی کیوں دیں؟

برادرِ بزرگ نے مجھ سے پوچھا کہ آخر یہ نئے والے حکمران کیا کرنے آئے ہیں؟ میں نے کہا: اپنے تئیں تو وہ صرف ایک ہی کام کرنے آئے تھے اور وہ یہ کہ انہوں نے فٹا فٹ‘ لشٹم پشٹم اپنے مقصود چپڑاسی کو ٹی ٹیوں والے کیس سے‘ فالودے والے غریب آدمی کو اربوں روپے کی منی لانڈرنگ سے اور پاپڑ والے کو اربوں کے فنڈ ٹرانسفر کرنے جیسے محیرالعقول مقدمات سے بری کروانا تھا اور یہ کام کرکے انہوں نے حکومت نگرانوں کے حوالے کرکے چپکے سے کھسک جانا تھا لیکن خانہ خراب ہو حالات کا کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہونے کے بجائے ان کے گلے پڑ گیا ہے۔
عدالتوں نے ایف آئی اے و از قسم دیگر تحقیقاتی اداروں کی جانب سے عدم پیروی اور تفتیشی افسروں کے تبادلوں جیسی حرکتوں پر پابندی لگا دی ہے۔ مقدر کی خرابی کا یہ عالم ہے کہ سب کچھ الٹ گیا ہے اور سارے کا سارا ملبہ نئے حکمرانوں پر آن گرا ہے اور گرا بھی اس سپیڈ سے ہے کہ سب کو ”شہباز سپیڈ‘‘ یاد آ گئی ہے۔ صورتحال اتنی عجیب و غریب ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ ہوکیا رہا ہے؟ موجودہ حکمرانوں کے بقول ان کے آنے سے قبل فرنس آئل‘ گیس اور فیول کی کمی اور مرمت نہ ہونے کے باعث ستائیس عدد بجلی گھر بند تھے۔ ان ستائیس بجلی گھروں کی بندش سابقہ حکمرانوں کی نااہلی‘ نالائقی اور غلط منصوبہ بندی کے باعث ہوئی تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے آ کر ان ستائیس میں سے بیس بجلی گھر چلا دیے ہیں اور لوڈشیڈنگ ہے کہ قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ لگتا ہے اس حکومت کے ہاتھ میں برکت ہی بہت ہے۔
میاں شہباز شریف نے قربانی اور ایثار کا بے مثال اظہار کرتے ہوئے اپنے کپڑے بیچ کر مہنگائی ختم کرنے اور غریب کو سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میاں شہباز شریف کے کپڑے تو سلامت ہیں اور انہیں بیچنے کی فی الحال حاجت نہیں ہوئی تاہم عوام کے رہے سہے کپڑے ضرور اترنے والے ہوگئے ہیں۔ برادرِ بزرگ پوچھنے لگے: پٹرول کی قیمت کہاں جاکر ٹھہرے گی؟ میں نے کہا: فی الحال تو یہ قیمت دو سو دس روپے فی لٹر ہے لیکن افواہ ہے کہ یہ قیمت عنقریب دو سو ستر روپے فی لٹر تک پہنچ جائے گی۔ اللہ جانے اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا مبالغہ‘ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اب عمران خان کی مہنگائی پر شور و غوغا کرنے والے بالکل چپ سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تب انہیں مہنگائی کے پیچھے عمران خان کی نااہلی دکھائی دیتی تھی اور ان ارسطوؤں کا خیال تھا کہ یہ ساری قیمتیں بنی گالا میں طے ہوتی ہیں‘ لیکن اب انہیں علم ہوا ہے کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہے اور پٹرول کی قیمت بھی عالمی منڈی میں طے ہوتی ہے۔
برادرِ بزرگ پوچھنے لگے: یہ سابقہ حکومتیں کیا ہوتی ہیں؟ میں نے کہا: یہ ہر موجودہ حکمران کیلئے جائے امان ہوتی ہیں‘ ہر حکمران اپنی ساری ناکامیوں‘ نالائقیوں اور نااہلیوں کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال کر اپنا پلہ چھڑوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب انہی حالیہ حکمرانوں کودیکھ لیں‘ پہلے پٹرول کی قیمتوں کے زیادہ ہونے پر شور کر رہے تھے اور جب خود آئے ہیں تو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے قیمتیں نہ بڑھا کر بڑا ظلم کیا اور اب ہمیں عمران خان کی حکومت کی کم قیمت والی غلط پالیسی کے باعث پٹرول کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں۔ ایک خاصا پڑھا لکھا دوست کل کہہ رہا تھا کہ پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافہ تو موجودہ حکمرانوں کو اس لیے کرنا پڑا ہے کہ خان صاحب جانے سے پہلے آئی ایم ایف کو مئی کے آخر میں ساٹھ روپے اور جون کے مہینے میں مزید ساٹھ روپے فی لٹر کے اضافے کی یقین دہانی کروا گئے تھے‘ ہمیں تو خان صاحب کے اس معاہدے کی وجہ سے پٹرول کی قیمت بڑھانی پڑی ہے‘ اگر سابقہ حکومت کے اس وعدے پر عمل نہ کرتے تو آئی ایم ایف قرضے کی مزید قسط روک لیتا اور ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ میں نے اس تعلیم یافتہ دوست کو کہا: یہی وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ آپ کو پٹواری کہتے ہیں۔ وہ دوست گرمی کھا کر کہنے لگا: اور تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں بہرحال آپ کو پٹواری نہیں کہوں گا کیونکہ اس طرح میرے ایک دو واقف کار اصلی پٹواری برا منا جائیں گے۔
ایک ہفتے کے اندر پٹرول ساٹھ روپے بڑھا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں بھی آٹھ روپے فی یونٹ کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ گھی‘ آئل‘ دالوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں ہونے والے کسی بھی ایک ماہ کے دوران ہونے والے اضافے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بقول حکومت: خزانہ خالی ہے مگر بلاوجہ کے غیرملکی دورے اور ان کی تشہیری مہم پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کا تو کسی کو علم ہی نہیں کہ وہ اس وقت کس ملک میں ہیں اور وہاں کیا کر رہے ہیں۔ جس دن سے وزارت سنبھالی ہے‘ مسلسل ایک ہی دورے پر ہیں‘ جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ملک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر ہے اور ان حکمرانوں کے وہی پرانے اللے تللے ہیں۔ وہی غیر ملکی دورے‘ وہی بڑے بڑے وفود اور ان وفود میں لندن سے آنے والے عدالتی مطلوب اور مفرور ملزمان۔ حکمران خود بھی درجنوں مقدمات میں ملزم ہیں اور ان کے مفرور عزیز و اقارب بھی اس سارے موج میلے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ادھر آئی ایم ایف کا یہ عالم ہے کہ اسے عوام کو دی جانے والی ہر سبسڈی پر تو پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں لیکن حکمرانوں کے اخراجات اور سرکاری افسروں کو دی جانے والی بے تحاشا اور بے جا سہولتوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا اور وہ اس میں کمی کرنے یا ختم کرنے کیلئے کبھی کوئی شرط نہیں لگاتے۔
اگر اس ملک کا عام آدمی دو سو دس روپے فی لٹر والا پٹرول اپنے پلے سے ڈلوا سکتا ہے‘ اگر سکول ٹیچر اور دہاڑی دار اس قیمت پر پٹرول ڈلوانا برداشت کر سکتا ہے تو پھر لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ لینے والا مراعات یافتہ طبقہ پٹرول پلے سے کیوں نہیں ڈلوا سکتا؟ گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس تک کا سرکاری افسر کسی سکول ٹیچر کی طرح اپنی جیب سے پٹرول کیوں نہیں ڈلواتا؟ اراکینِ اسمبلی و سینیٹ‘ وزیر‘ مشیر‘ بیورو کریٹ‘ جج‘ جنرل اور حکمران طبقہ اپنے پٹرول کا خرچہ خود کیوں نہیں اٹھاتا؟ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ سرکاری افسران خواہ ان کا تعلق کسی محکمے‘ کسی شعبے یا کسی ادارے سے بھی ہو‘ ان کو اپنی تنخواہ سے پٹرول اور بجلی کے بل دینے کا پابند کیا جائے۔
ایک معتبر ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دیگر مراعات و سہولتیں جمع کی جائیں تو وہ پرائیویٹ سیکٹر کی تنخواہوں سے کہیں زیادہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں گریڈ اکیس اور بائیس کا افسر حکومت پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے افسر سے قریب بارہ فیصد زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور دیگر مراعات کی مد میں ادائیگی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے چند ٹاپ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں سرکاری افسر کیلئے اتنے بڑے گھر‘ مفت کی بجلی‘ مفت کا پٹرول‘ گھر کا کرایہ‘ ملازمین کی سہولت‘ ٹیلی فون کاخرچہ حتیٰ کہ مہمانداری الاؤنس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
حالیہ معاشی صورتحال کو ایک انگریزی محاورے Blessing in disguiseکے مطابق خرابی میں سے بہتری نکالنے کیلئے غنیمت سمجھا جائے اور لگے ہاتھوں اس ملک کے سارے مراعات یافتہ طبقے کو الم غلم قسم کی فراہم کردہ سہولتوں اور مراعات از قسم مفت پٹرول‘ بجلی‘ ٹیلی فون‘ گاڑی اور مختلف الاؤنس ختم کرتے ہوئے سارے کھانچے بند کئے جائیں۔ آخر اس ملک میں صرف غریب عوام ہی کب تک قربانی دیتے رہیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ مقدس گائیں بھی قربان کی جائیں۔