دلہن ایک رات کی

برادر بزرگ اُس وقت صرف سوالات کرنے کے موڈ میں تھا‘ پوچھنے لگا: ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کا فیصلہ کیسا تھا؟ میں نے کہا: بالکل ویسا جیسا ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا تھا۔ مطلب؟ برادر بزرگ نے استفہامیہ انداز میں سوال کیا۔ مطلب یہ کہ وہ فیصلہ بھی غیرآئینی اور غلط تھا اور یہ فیصلہ بھی غیرآئینی اور غلط تھا لہٰذا قاسم کے جوتوں کی طرح دونوں واپس گھر آگئے۔ تب والا فیصلہ بھی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے خود نہیں کیا تھا محض وہ کچھ پڑھا تھا جو انہیں لکھ کر دیا گیا تھا اور اب بھی دوست محمد مزاری نے وہی کچھ پڑھا جو انہیں لکھ کر دیا گیا تھا۔ بقول فرخ حبیب ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری چابی والا کھلونا تھے بالکل ویسا ہی چابی والا کھلونا جیسا کہ قاسم سوری تھے۔ بحیثیت کالم نگار ہماری نہ کوئی پسندیدہ سیاسی پارٹی یا لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی ناپسندیدہ۔ جو درست ہے اسے درست لکھیں گے اور جو غلط لگے گا اسے غلط لکھیں گے۔ غیر جانبدار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ فاترالعقل ہو اور صحیح یا غلط میں تمیز کرنے سے عاری ہو جائے۔ اب گول مول بات کیا کریں؟ جو ٹھیک لگتا ہے بغیر لگی لپٹی کہہ دیتا ہوں۔
برادر بزرگ نے پھر سوال جڑ دیا کہ تمہارا اپنے تجزیے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کے درست یا غلط ہونے کے کیا امکانات ہیں؟ میں نے کہا: تجزیہ کرتے وقت آپ اپنی بہترین عقل اور صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ بعض اوقات تلپٹ ہو جاتا ہے۔ معروضی حالات میں آنے والی تبدیلیاں اور معلومات کے ذریعے میں اونچ نیچ‘ سب کچھ غلط کرکے رکھ دیتی ہے۔ جیسے ملتان کے صوبائی حلقے پی پی 217 کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر میرا تجزیہ غلط ثابت ہوا۔ میں نے اپنے تجزیے کا مرکزی نکتہ یہ رکھا کہ زین قریشی کے جیتنے کے امکانات کیا ہیں۔ بس یہیں میں مارکھا گیا۔ اگر میں تجزیہ کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھتا کہ سلمان نعیم کے ہارنے کے امکانات کیا ہیں تو میں یقینا بہتر اور حقیقی تجزیہ کر سکتا تھا۔
سلمان نعیم کے معاملے میں جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ مسلم لیگ (ن) کے سارے پرانے پاپی اندر خانے اس کے خلاف تھے۔ کیا رانا برادران اور کیا ہمارا دوست چودھری وحید آرائیں‘ بعد میں یہ پتا چلا کہ زین قریشی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 157 سے مسلم لیگ (ن) کے شکست خوردہ امیدوار ملک غفار ڈوگر بھی مبینہ طور پر شہر میں آ کر اپنی برادری اور حلقۂ اثر کے لوگوں کو پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ دینے کا کہتے رہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ ان کا بھلا شہر کے اس صوبائی حلقے سے کیا لینا دینا تھا؟ بتانے والے دوست نے میری کم علمی پر کوئی تبصرہ تو نہ کیا؛ تاہم طنزیہ سی ہنسی ہنس کر کہنے لگا کہ اس سابقہ ایم این اے کو زین قریشی کو شہر کے صوبائی حلقے میں جتوانے کی اس لیے پڑی ہوئی تھی کہ یہاں سے جیتنے کی صورت میں زین قریشی اپنا قومی حلقہ این اے 157 چھوڑ دیں گے اور اس خالی حلقے میں ضمنی الیکشن ہوگا تو ملک غفار کو اس میں اپنی لاٹری نکلنے کی امید ہے۔ پھر وہ دوست کہنے لگا: یہ سیاستدان بہت دور کی سوچتے ہیں‘ تمہاری طرح روزانہ کی بنیاد پر نہیں سوچتے۔ سیاستدان اور کالم نگار میں بہت فرق ہوتا ہے‘ میں نے اپنے اس دوست کی بات سے فوراً اتفاق کر لیا۔
2018ء کے الیکشن میں جب سلمان نعیم پی ٹی آئی کے امیدوار شاہ محمود قریشی کے خلاف آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے تھے تب ان کے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سپورٹرز کو یقینِ کامل تھا کہ جیت کر سلمان نعیم دوبارہ پی ٹی آئی کا حصہ بن جائیں گے‘ اس لیے انہیں پی ٹی آئی کے سارے نوجوانوں کی مکمل حمایت اور مدد حاصل تھی تب سارے نوجوان شاہ محمود کی وعدہ خلافی کے خلاف بھرے پڑے تھے۔ لیکن اس بار عمران خان کے ساتھ منصوبہ سازوں کے سلوک کی وجہ سے نوجوان بہت زیادہ جذباتی اور Reactionary تھے۔ انہوں نے سلمان نعیم کے تحریک انصاف چھوڑ کرمسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہونے پر اس سے کہیں زیادہ سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا جتنا کہ وہ کسی دوسرے عام مسلم لیگی امیدوار کے خلاف کرتے۔
اور ہاں! ایک بات اور‘ وہ یہ کہ سلمان نعیم خود بھی اپنی جیت کے معاملے میں شدید مغالطے کا شکار اور آخری حد تک خود اعتماد تھے‘ اوپر سے ان کے والد نے بھی یہ طے کر رکھا تھا کہ روزانہ جتنے ووٹ ان کا بیٹا بنا کر آئے گا وہ اس سے زیادہ خراب کرکے گھر واپس آئیں گے اور ان کے والد اپنی طبیعت کے طفیل نہ صرف مکمل کامیاب رہے بلکہ اُس سے زیادہ ووٹ خراب کرکے روزانہ گھر واپس آئے جتنی کہ امید تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شاہ محمود قریشی نے (جیسا کہ میں اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں) جتنی منظم مہم چلائی اور جان توڑ محنت کی اتنی تو شاہ جی نے اپنے کسی الیکشن میں بھی نہیں کی تھی۔ اس ضمنی انتخاب میں جتنی ستھرائی یوسف رضا گیلانی اینڈ فیملی کی ہوئی ہے‘ وہ تاریخی ہے۔
امریکہ میں بیٹھے ہوئے اس عاجز کا تجزیہ لودھراں اور مظفر گڑھ کے چاروں حلقوں کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بارے میں حلقہ نمبر کے حساب سے سو فیصد درست ثابت ہوا؛ تاہم اس مسافر کا اپنے ہی شہر کے بارے میں تجزیہ غلط ثابت ہوا لیکن ملک میں غیرحاضر مسافر کو تو چھوڑیں‘ موقع واردات پر بیٹھے ہوئے تقریباً سبھی غیرجانبدار تجزیہ کاروں کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور عوامی ردعمل کے سیلاب کے سامنے وہ کچھ بہہ گیا جس کی کسی کو توقع ہی نہیں تھی۔
برادر بزرگ نے پھر ایک سوال جڑ دیا کہ آخر زرداری صاحب نے چودھری شجاعت حسین کے کان میں کیا پھونک ماری ہو گی کہ شجاعت صاحب جو ایک روز قبل تک چوہدری پرویز الٰہی کی حد تک خاصے یکسو اور واضح دکھائی دے رہے تھے‘ ڈپٹی سپیکر کو ایک ایسا خط لکھنے پر راضی ہو گئے جس کی خبر چودھری پرویز الٰہی کو بھی نہیں تھی۔ میں نے کہا: مجھے اب یہ تو قطعاً علم نہیں کہ زرداری صاحب نے چودھری شجاعت کو کیا گیڈر سنگھی سنگھائی ہو گی؛ تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زرداری صاحب نے چودھری شجاعت کو اپنے دلائل سے قائل کرنے کے بجائے ان کے پرانے تعلق داروں کے متوقع ردعمل اور جذبات سے آگاہ کیا ہوگا۔ چودھریوں کی سیاست عشروں سے جن کی ہدایات پر چل رہی تھی اور ان ہدایات پر عمل کرنے کے طفیل چودھری اقتدار بھی انجوائے کرتے رہے ہیں‘ بھلا انہیں کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ تاہم میرا خیال ہے کہ بامروت اور وعدے کی پاسداری کے حوالے سے شہرت رکھنے والے چودھری شجاعت حسین نے خط سے جہاں زرداری صاحب کو راضی بھی کر لیا وہیں یہ خط اپنے نتائج کے حوالے سے ایسی پرانی بندوق ثابت ہوا جو لڑائی میں تو کبھی نہیں چلتی مگر صفائی کے دوران اپنا ہی بندہ مار دیتی ہے۔
برادر بزرگ کہنے لگے کہ آخری سوال یہ ہے کہ اب کیا بنے گا؟ میں نے کہا: میں نہ تو علمِ غیب کا ماہر ہوں اور نہ ہی کوئی جوتشی؛ تاہم صرف کامن سینس سے کام لیں تو جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس ساری مارا ماری کا واحد حل انتخابی اصلاحات اور پھر فوری الیکشن ہیں لیکن یہ تبھی نتیجہ خیز ثابت ہوں گے اگر عمران خان قومی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنا آئینی کردار انجام دیں گے۔ اٹھتے اٹھتے برادر بزرگ نے چسکا لینے کے لیے پوچھا کہ حمزہ شہباز کی کابینہ میں آنے والے تمہارے دوستوں کی وزارت کا کیا بنا؟ میں نے ہنس کر کہا: عرصہ ہوا ایک فلم لگی تھی جس کا نام تھا ”دلہن ایک رات کی‘‘۔ بس آپ باقی سب کچھ خود ہی سمجھ جائیں‘ میں مزید کیا کہوں؟