سلیکٹڈ والے بیانیے کی تدفین

اندازوں کی دو اقسام ہیں؛ جانبدار اندازہ اور نسبتاً غیر جانبدار اندازہ۔ رہ گئی بات مکمل غیر جانبدار اندازے کی تو وہ فی الحال دنیا میں شاید ہی کہیں لگایا جاتا ہو۔ ایسی صورت میں نسبتاً غیر جانبدار اندازوں پر ہی بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ جانبدار اندازے وہ ہوتے ہیں جوعموماً جلسوں میں شرکاکی تعداد کے بارے میں ہوتے ہیں۔ جانبدار فریقین یعنی جلسہ کرنے والی پارٹی کے حامی تجزیہ کار اسی ایک جلسے کے بارے میں عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ جلسے میں شرکا کی تعداد اڑھائی لاکھ تھی جبکہ اسی جلسے کے شرکاکی تعداد کے بارے میں مخالف پارٹی کا حامی نہایت ہی سینئر تجزیہ کار یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ جلسے کے شرکاکی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔اب ایسے میں گھر بیٹھا ہوا شریف آدمی کیا اندازہ لگائے اور کس بات پر یقین کرے؟

یہی حال گزشتہ چند روز سے پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن پر ہونے والے تبصروں کا تھا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) کے حامی بیس میں سے سترہ سیٹیں تو خیر سے بڑے آرام سے جیت رہے تھے جبکہ بقیہ تین پر بھی بہت سخت مقابلہ بتا رہے تھے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے حامی بھی اسی تعداد کو الٹ کر کے بتا رہے تھے (جو بعد میں کسی حد تک سچ ثابت ہوئی) تاہم تب یہ اندازہ دراصل اندازے سے زیادہ خواہش کے تابع دکھائی دے رہا تھا۔ نسبتاً غیر جانبدار صاحبانِ عقل و خرد مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کو ایک آدھ اوپر نیچے برابر کی نشستیں عطا کر رہے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ اندازے جنہیں ہم قدرے غیر جانبدار اور حقیقت سے قریب تر سمجھ رہے تھے وہ بھی یکسر غلط ثابت ہوئے اور ان بیس میں سے پندرہ نشستوں پر پی ٹی آئی نے حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین کامیابی حاصل کر کے جہاں حمزہ شہباز کی رخصتی پر مہر لگائی ہے‘ اس کے ساتھ اسلام آباد میں براجمان میاں شہباز شریف کی سٹی گم کرنے کے ساتھ ساتھ نئے انتخابات کے مطالبے میں بھی جان ڈال دی ہے۔ عمران خان کی اس محّیرالعقول کامیابی کے بعد گمان غالب ہے کہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار لندن میں اپنا قریب الاختتام قسم کا علاج دوبارہ نئے سرے سے شروع کر دیں گے۔

جیتنے والوں کے نزدیک یہ عمران کے بیانیے کی فتح ہے اورہارنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان جاتے جاتے جو اقتصادی بارودی سرنگیں بچھا گئے تھے‘ اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی اورپٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے ان کی شکست میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اوپر سے لوٹوں کو ٹکٹ دینے کا منفی اثر ہوا۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے علاوہ نیوٹرلز کے بارے عوامی جذبات نے بھی بہت بڑا کردارسرانجام دیا ہے۔ اس الیکشن میں سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ کسی کو بھی الیکٹ ایبلز کو گھیرنے کی فکر نہیں تھی۔ ان بیس حلقوں کا ہر الیکٹ ایبل مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ ہولڈرتھا۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر یا آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں آنے والے بیس ارکانِ صوبائی اسمبلی میں سے سترہ تو خود مسلم لیگ( ن) کے امیدوار تھے‘ دو نے اپنی جگہ اپنے کسی عزیز کوٹکٹ دلوا دی تھی‘ صرف ایک علیم خان والی لاہور کی سیٹ تھی جس پر دونوں طرف سے نئے امیدوار تھے۔ ڈیرہ غازی خان کی پی پی 288 پر محسن عطا کھوسہ آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں آیا تھا اور اس بار اس نے اپنے کزن اور این اے 190 سے رکن قومی اسمبلی امجد فاروق کھوسہ کے بیٹے عبدالقادر کھوسہ کو ٹکٹ دلوائی تھی اور مظفر گڑھ پی پی272 سے 2018ء میں ایم این اے باسط سلطان بخاری نے اپنی والدہ زہرہ بتول کو پی ٹی آئی سے ٹکٹ دلوایا تھا اور اس بار والدہ کی نااہلی کے بعد اسی نشست سے اپنی اہلیہ زہرہ باسط بخاری کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دلوا دیا۔ یعنی الیکٹ ایبلز یا تو خود امیدوار تھے یا پھر انہی کے نامزد کردہ امیدوار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکشن لڑ رہے تھے‘ لہٰذا الیکٹ ایبلز کو گھیرنے والے اس بار بالکل فارغ تھے اور مسلسل یہی سوچ رہے تھے کہ اب ہم کیا کریں؟

ایمانداری کی بات ہے کہ اس ضمنی الیکشن کے نتائج نے جہاں بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہے‘ وہیں بہت سوں کو پریشان بھی کر دیا ہے۔ حیرانی کی تو خیر ہے ایک آدھ دن میں دور ہو جائے گی لیکن پریشانی کافی الحال کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا اور محکمہ زراعت کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ اب کیا بنے گا؟ پنجاب میں‘ جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ راولپنڈی سے لے کر ڈیرہ غازی تک پی ٹی آئی نے عوام میں اپنے بیانیے کی پذیرائی کے ساتھ امپورٹڈ حکومت سے عوامی بیزاری اورغیر جانبداروں کے جانبداری پر مبنی فیصلوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے ‘لیکن اس نتیجے نے پارٹیوں سے وفاداری کی حد تک جڑے ہوئے ”غیر جانبدار‘‘ تبصرہ نگاروں کو ان کے اندازوں کی خرابی اور ان نتائج سے پیدا ہونے والی پریشانی نے ایسا مخبوط الحواس کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ اب اس رزلٹ کی ایسی بھونڈی تشریحات کر رہے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ میں نے ادھر امریکہ میں ایک عرصے کے بعد برادر بزرگ اعجاز احمد کے ڈیرے پر لگے ہوئے ٹی وی کو آن کیا اور ان نتائج پر ہونے والے ماہرانہ تبصروں کو ملاحظہ کیا۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کو دراصل 2018ء کے مقابلے میں مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پی ٹی آئی اپنی بیس سیٹو ں میں سے محض پندرہ سیٹیں ہی واپس لے پائی ہے۔ یعنی پی ٹی آئی کو اس فتح کے بعد بھی پانچ سیٹوں کا خسارہ ہے۔ مجھے یہ تبصرہ سن کر بڑی ہنسی آئی کہ یہ جانبداری بھی کیا عجیب شے ہے‘ بندے کو عقل سے بالکل ہی پیدل کر کے رکھ دیتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو یعنی پی ٹی آئی کو اس ضمنی الیکشن میں پانچ نشستوں کا اضافہ ملا ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں ان بیس سیٹوں میں سے تحریک انصاف نے خود دس نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ سیٹیں پی پی 140 شیخوپورہ‘پی پی 158‘ 167‘ 168 اور 170 لاہور ‘ پی پی 202 چیچہ وطنی‘ پی پی224 اور 228 لودھراں اورپی پی 272‘ 273 مظفر گڑھ کی تھیں۔ جبکہ پی پی 7 راولپنڈی‘ 83 خوشاب‘ 90 بھکر‘ 97 فیصل آباد‘ 125‘ 127 جھنگ‘ 217 ملتان‘ 237 بہاولنگر‘ 282 لیہ اور 288 ڈیرہ غازی خان سے آزاد جیتنے والے امیدواروں نے جیتنے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ وہ الیکٹ ایبلز تھے جنہوں نے 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے امیدواروں کو شکست دی‘ یعنی یہ وہ امیدوار تھے جو پارٹی کے ووٹوں کے محتاج نہیں تھے بلکہ ذاتی حیثیت سے جیت کر آئے تھے اور ان کا کل ووٹ بینک ان کا قطعی ذاتی ووٹ بینک تھا۔ اب ان کے پاس ان کا ذاتی ووٹ بینک بھی موجود تھا اور (ن) لیگ کا ووٹر بھی تھا لیکن وہ اس کے باوجود ہار گئے۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز نے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایک نئے اور سنہرے باب کا اضافہ کیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ اگر عوام اپنے جذبے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو الیکشن کمیشن کی چالاکیاں ‘ ضلعی انتظامیہ کی زور آوریاں اور منصوبہ بندیاں کسی کام نہیں آتیں۔

اس ضمنی الیکشن کے نتیجے میں جہاں حمزہ شہباز شریف کی وزارتِ علیہ کی مرغی ذبح ہوئی ہے اور ہمارے عزیز دوست اور جلالپور پیروالا سے آزاد ایم پی اے قاسم خان لنگاہ کی متوقع وزارت کا انڈہ ٹوٹا ہے‘ وہیں سابقہ اپوزیشن اور حالیہ حکمران اتحاد کا عمران خان کے سلیکٹڈ ہونے کا بیانیہ بھی دفن ہو گیا ہے۔