معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ضمنی الیکشن، ایک جائزہ
16اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات پاکستانی تاریخ کے سب سے فضول، بلاجواز اور غیراخلاقی انتخابات تھے ۔ اس معاملے میں کوئی فریق اخلاقی جواز کے اسلحہ سے لیس نہیں تھا۔
پہلی بات تو یہ کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے جو کام کیا، وہ انتہائی غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی تھا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے تمام ممبران اسمبلی نے اسی طرح استعفے دیئے تھے جس طرح ڈی نوٹیفائی ہونے والے گیارہ ممبران نے دیئے تھے ۔ جس طرح عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اسپیکر کے سامنے جاکر اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کی اور کئی ایک بدستور پارلیمنٹ لاجز میں رہ رہے ہیں اسی طرح ان ڈی نوٹیفائی ہونے والوں نے بھی اسپیکر کے پاس جاکر تصدیق نہیں کی تھی لیکن اسپیکر نے ان میں سے صرف گیارہ کے استعفے منظور کئے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کونسے ضابطے کے تحت گیارہ اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کئے گئے اور باقی کے نہیں ہوئے۔یوں حکومتی اتحاد کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ دوسری طرف ایسے عالم میں جبکہ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، حکومت کی طرف سے ضمنی انتخابات کا ڈرامہ رچانا ان لوگوں کے ساتھ ظلم سے کم نہیں تھا۔ چونکہ اخلاقی جواز نہیں تھا اس لئے حکومتی اتحاد الیکشن کے بارے میں متذبذب رہا۔
مریم نواز وغیرہ نے انتخابی مہم میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ ضمنی الیکشن کرانے کا فیصلہ بھی حکومت نے کیا تھا لیکن جب 16اکتوبر قریب آئی تو الیکشن سے چند روز قبل وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن میں انتخابات ملتوی کرانے کے لئے درخواست دی جبکہ دوسری طرف حکومتی اتحاد میں شامل اے این پی کے ایمل ولی خان نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں رٹ دائر کردی ۔
اسی طرح ایک ہفتہ قبل تک اے این پی اور جے یو آئی گورنر کے مسئلے پر آپس میں حالت جنگ میں تھیں لیکن اچانک بارگیننگ کرکے اے این پی نے گورنر شپ جے یوآئی کے سپرد کردی ۔
اب آجائیے دوسرے فریق یعنی عمران خان کی طرف ۔ تماشہ یہ ہے کہ انہوں نے اسمبلی سے استعفے دے دیئے ہیں لیکن اپنے ممبران پر اعتبار نہیں یا پھر اسمبلی میں واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس لئے معاملہ مکانے کے لئے عدالتی وضاحت کے باوجود اسپیکر کے پاس جاکر اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کررہے اور نہ استعفے واپس لے رہے ہیں اور نہ اسمبلی میں جارہے ہیں ۔ پھر جن ارکان کے استعفے منظور ہوئے تھے .
انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ ان کے استعفے غلط طور پر منظور کئے گئے ہیں لیکن جب عدالت نے ان سے کہا کہ کیا وہ اسمبلی میں واپس جاکر بیٹھنے اور اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرنے کی گارنٹی دیتے ہیں تو عمران خان نے انہیں اس گارنٹی کی اجازت نہیں دی۔
اسی طرح عمران خان نیازی کی سیاست کا ہدف اسمبلی کی تحلیل اور جلدازجلد انتخابات ہیں ، جس کے لئے وہ اسلام آباد مارچ اور ہزاروں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنےکا رِسک لے رہے ہیں لیکن آسان کام نہیں کررہے۔ وہ اگر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کردیں اور قومی اسمبلی سے استعفوں کی تصدیق کرادیں تو حکومت کے پاس نئے انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا لیکن اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سیٹوں کی غیرمضر قربانی دینے کی بجائے دوسرا خطرناک راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔
اسی طرح شاید یہ دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ پہلے سے رکن قومی اسمبلی اور اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر عمران خان اسمبلی میں نہیں جارہے ۔
انہوں نے استعفیٰ دیا ہے لیکن اس کی تصدیق کے لئےا سپیکر کے پاس نہیں جارہے ہیں ۔ پھر یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک شخص اسمبلی کا ممبر ہے لیکن دوبارہ اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے انتخاب لڑرہا تھا ۔ وہ بھی ایک نہیں بلکہ نصف درجن حلقوں سے۔انتخاب لڑتے ہوئے امیدوار لوگوں سے یہ کہتا ہے کہ میں اسمبلی میں جاکر یہ یہ کام کروں گا لیکن عمران خان یہ کہہ کر لوگوں سے ووٹ مانگ رہے تھے کہ میں اسمبلی نہیں جائوں گا ۔ اب کسی ووٹر نےیہ نہیں پوچھا کہ جب اسمبلی جانا نہیں تو پھر ووٹ کیوں مانگ رہے ہیں ۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ وہ موروثی سیاست کے مخالف ہیں لیکن دوسری طرف شاہ محمود قریشی جو پہلے سے ایم این اے ہیں اور ان کا بیٹا ممبر صوبائی اسمبلی ہے ، کی بیٹی کو ٹکٹ دیا گیا لیکن دوسری طرف برسوں سے اپنے حلقوں میں الیکشن لڑنے والوں کی جگہ وہ خود کھڑے ہوئے۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات میں لوگوں نے عمران خان سے محبت کا اظہار کم کیا ہے لیکن حکومتی اتحاد پر غصہ زیادہ نکالا ہے۔لوگوں میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ مقبول ہوتا ہے اور جو جماعتیں گزشتہ کئی سال سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرکے عمران خان کو کٹھ پتلی کہا کرتی تھیں، لوگوں کی نظروں میں اب وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوا نظر آئیں ۔
دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے اور اس طرح اتحادی جماعتوں کی ”خدمت“ نہیں کررہی جس طرح عمران خان کی کیا کرتی تھی۔پھر جب یہ دیکھتے ہیں کہ شہباز شریف نے اپنے بیٹے، زرداری نے اپنے بیٹے اور مولانا نے اپنے بیٹے کو حکمران بنایا تو لوگ اور برا مناجاتے ہیں۔
مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج تو بنائی گئی لیکن مشاورت کے عمل کا فقدان ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد اس میں شامل سب جماعتوں نے سیاست چھوڑ دی ہے جبکہ عمران خان بھرپور سیاست کررہے ہیں ۔ وہ سادہ لوح عوام کو اپنا جھوٹ بیچنے میں کامیاب ہوئے لیکن حکومت اپنا سچ بھی عوام کو نہ پہنچا سکی ۔
معیشت کے سلسلے میں جو بارودی سرنگیں سابق حکومت نے بچھائی تھیں، وہ بھی یہ لوگ عوام کو نہیں سمجھاسکے اور لوگ ناقابل برداشت مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کو سمجھنے لگے ۔ خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے کہ جہاں لوگ کارکردگی نہیں بلکہ تصورات اور پرسپشنز کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں یا پھر لیڈروں کے رویے کو دیکھتے ہیں ۔
اس وقت وہاں کا نمبرون مسئلہ امن وامان ہے جس سے بڑی جماعتیں لاتعلق ہیں اور میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر عمران خان کے مقابلے میں منظور پشتین امیدوار ہوتے تو ان کی ضمانت ضبط کرادیتے ۔ لیکن تماشہ یہ ہے کہ قوم کے بے تحاشہ وسائل ضائع کرنے اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی عمران خان کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔
کیونکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی دونشستیں کم جبکہ شہباز شریف کی دو بڑھ گئیں۔ ایک فائدہ بہر حال یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی غیرجانبداری ثابت کردی اور پی ٹی آئی نے اسے گالیاں دینے میں ایک دن کا وقفہ کردیا۔