بجلی کے بل: پس چہ باید کرد

پاکستان میں توانائی کے بحران کا کوئی ایک ذمہ دار نہیں۔ ماشااللّٰہ اس قومی جرم میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔ اللّٰہ نے پاکستان کو دریاؤں کی نعمت سے نوازا ہے اور درجنوں مقامات ایسے ہیں جوفطری طور پر ڈیم بنانےکیلئے مثالی ہیں لیکن ماضی کے حکمرانوں نے کفران نعمت کرتے ہوئے اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا۔ داسو اور مہمند ڈیم کی تعمیر میں غیرمعمولی تاخیر ہوئی ۔ جنرل ضیا کا دور ڈیم بنانے کیلئے مناسب ترین دور تھا کیونکہ افغان جنگ کی وجہ سے امریکی ڈالر بھی آرہے تھے لیکن وہ بھی ڈیم نہ بناسکے ۔ پھر یہ موقع جنرل مشرف کے پاس تھا لیکن ڈیم بنانا تو درکنار وہ ملک کو ایسی حالت میں چھوڑگئے کہ توانائی کا شدید بحران تھا۔ بے نظیربھٹو نے یہ زیادتی کی کہ آئی پی پیز کے مہنگے معاہدے کئے اور آج بجلی کے مہنگے ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ آئی پی پیز ہیں۔ ان معاہدوں میں آئی پی پیز کے مالکان کو نوازنےکیلئےیہ طے پایا کہ ادائیگی ڈالروں میں ہوگی۔ سو جوں جوں ڈالر کی شرح روپے کے مقابلے میں بلند ہوتی ہے ، بجلی بھی مہنگی ہوتی ہے۔ ان معاہدوں میں یہ ظالمانہ شرط بھی ہے کہ حکومت کو ضرورت ہو یا نہ ہو لیکن بجلی ان سے خریدی جائیگی ۔ ان معاہدوں کی وجہ سے آئی پی پیز کے مالکان نے کھربوں روپے کمائے اور کمارہے ہیں جبکہ غریب کیلئے بجلی کے بل موت کا پروانہ بنتے جارہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ڈیم بنانے میں پرائیویٹ سیکٹر کو لایا جاتا تو آج نہ صرف سستی بجلی میسر ہوتی بلکہ سمندر میں گر کر ضائع ہونے والے پانی کو زراعت کے لئے بھی استعمال کیاجاتا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سڑکوں کے انفراسٹرکچر پر توجہ دی لیکن آئی پی پیز کے مسئلے کا حل نکال کر ڈیم بنانے پر توجہ نہ دی ۔ لیگی حکومت نےسی پیک کے تحت جو پلانٹ لگائے وہ تیل سے چلنے والے آئی پی پیز کی طرح مہنگے نہیں لیکن کوئلے سے چلنے کی وجہ سے وہ پانی سے بننے والی بجلی کی نسبت کافی مہنگے ہیں۔ عمران خان نیازی نے تین سو چھوٹے ڈیم بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن تین بھی نہ بناسکے ۔یوں اس گناہ میں سب شریک ہیں۔

اب جب ہم مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں تو اس کے بلوں کی وصولی کے سلسلے میں حساسیت اور شفافیت کا مظاہرہ ہونا چاہئے تھا لیکن یہاں پر پختونخوا اور بلوچستان تو کیا کراچی جیسے شہر میں بھی بجلی چوری کا رجحان زوروں پر ہے ۔ یہ کام نہ صرف متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کی نااہلی یا سرپرستی کی وجہ سے ہورہا ہے بلکہ چوری کی اس کمی کو بل دینے والے صارفین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔دنیا کے ہر مہذب ملک میں سہولت پسے ہوئے طبقے کو دی جاتی ہے لیکن یہاں پر اشرافیہ کو جس طرح دوسرے طریقوں سے نوازا جاتا ہے، وہاں بجلی کے بلوں کی مد میں بھی ان کو نوازا جاتا ہے ۔

یہاںاعلیٰ سرکاری افسران، ججز ، جرنیلوں اور واپڈا ملازمین کو کئی ہزار یونٹ مفت فراہم کرنے کی سہولت دی گئی ہے جو بل کی ادائیگی کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے بے دریغ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ میں نے اس ملک میں ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جہاں روٹی پکانے کے تنوروں میں بھی بجلی کے ہیٹر استعمال کئے جاتے ہیں۔ آخری ظلم آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے والے عمران خان اور شہباز شریف کے وزرائے خزانہ نے کیا جنہوں نے آئی ایم ایف کی یہ شرط مان لی کہ بجلی کی مد میں سبسڈی نہیں دی جائے گی اور ہر ماہ اس شرح کے ساتھ بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگا کر مطلوبہ وصولی کی جائے گی ۔ آئی ایم ایف کو سرکار کی آمدنی میں اضافہ چاہئے نہ کہ کسی خاص مد پر ٹیکس ۔ ان وزرائے خزانہ کو چاہئے تھا کہ بجلی پر ٹیکسوں کے اضافے کی شرط ماننے کی بجائے سرمایہ داروں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے، تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے یا پھر سیگریٹ پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے جیسا وعدہ کرتے۔ اب انہوں نے حکومت کوپھنسا دیا ہے اور آئی ایم ایف کی شرط پورا کرنے کیلئےبجلی کے بلوں میں یہ ٹیکس لگانا مجبوری ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ بل عام آدمی کسی صورت ادا نہیں کرسکتااور اگر اضافہ واپس نہ لیا گیا تو معاملہ بہت بگڑسکتا ہے ۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ بجلی کے بلوں میں اضافہ واپس لےکر اس رقم کا کسی متبادل ذریعے سے بندوبست کرے اور آئی ایم ایف سے بات کرکے بتائے کہ اس کمی کو فلاں مد سے پورا کیا جائے گا۔ ایک فوری قدم یہ ہوسکتا ہے کہ ایم این ایز اور سینیٹر کو جو اربوں روپے کے فنڈز گزشتہ بجٹ میں دئیے گئے ہیں، ان میں جو رقم خرچ نہیں ہوئی اسے واپس لیا جائے ۔ ایک دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ اضافہ واپس لے کر جو طبقات مفت بجلی استعمال کررہے ہیں اس ماہ ان سے بل لے کر اس کمی کو پورا کردیا جائے اور آئندہ کیلئے ہر طبقے کی مفت بجلی کی سہولت ختم کی جائے۔مستقل حل کیلئے بجلی کے استعمال میں کمی کے اقدامات کیے جائیں۔ جن میں پہلا کام یہ ہوسکتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے علاوہ وزیراعظم ہائوس سمیت تمام سرکاری دفاتر میں ائرکنڈیشنر کے استعمال پر پابندی لگائی جائے (صرف غیرملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر وزیراعظم ہائوس کے اے سی چلائے جائیں) ۔ اس ملک کے عام شہری تپتی دھوپ میں کام کرتے ہیں یا پھر تنور جیسی گرم عمارتوں پر کام کرتے ہوئے پسینہ بہاتے ہیں جبکہ گھر آکر انہیں بجلی کا ایسا بل تھمایا جاتا ہے ، جو ان کی پوری ماہانہ آمدنی سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ان حالات میں حکمراں طبقہ کمرے کے اندر پنکھے کے ساتھ کیوں گزارا نہیں کرسکتا؟۔

جب عوام کو یہ پیغام جائے گا کہ ان کے حکمراں بھی تکلیف برداشت کررہے ہیں تو ان کا غصہ کم ہوگا۔ ایک اور فوری کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ شاپنگ مال اور بازاروں کو صبح سویرے کھولنے اور مغرب کی اذان کے ساتھ بند کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔اس سے بجلی کی غیرمعمولی بچت ہوگی اور ہم سورج کی روشنی استعمال کرسکیں گے ۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے امیر ممالک میں یہ نظام رائج ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ہمارے تاجروں سے جب یہ بات کی جاتی ہے تو وہ سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اب جو بندہ خریداری کیلئے رات دس بجے آتا ہے ، اسے جب یہ علم ہوگا کہ مغرب کے ساتھ دکان بند ہوگی تو وہ پھر مغرب سے پہلے آئے گا ۔ یوں کاروبار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن نہ جانے کیوں ہمارے تاجر اس تجویز پر سیخ پا ہوجاتے ہیں لیکن میرے نزدیک اب وہ وقت آگیا ہے کہ حکومت بجلی کی بچت کیلئے اس فیصلے پر سختی سے عمل کرائے۔