25 جولائی 2018 سے 25 جولائی 2023 تک

میں یہ سطور 25 جولائی 2023کو تحریر کررہا ہوں۔ آج سے پانچ سال قبل الیکشن کے نام پر ایک ڈرامہ ہوا تھا جس میں عمران خان احمد خان نیازی کو سلیکٹ کروا کےوزیراعظم کے منصب پر بٹھادیا گیا ۔ ان کا پروجیکٹ 2010 میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے شروع کیا تھا جو 2018کو نکتہ عروج پرپہنچا۔ پانچ سال قبل آج کے دن انہیں سلیکٹڈ وزیراعظم بنوانے کیلئے آرٹی ایس بٹھایا گیا۔ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا اور پھر باوردی لوگوں سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں ٹھپے لگوائے گئے ۔ اس دن جب جیوکی الیکشن ٹرانسمیشن میں میں نے اسفندیار ولی خان کی بیٹی جو اِن کی پولنگ ایجنٹ تھی اور اسی نوع کے دیگر پولنگ ایجنٹوں کو جبراً باہر نکلوانے کی بات کی تو آئی ایس پی آر کے دبائو پر مجھے الیکشن ٹرانسمیشن سے باہر نکالا گیا ۔ عمران خان کے دور اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر میڈیا کی جو زباں بندی کی گئی اس سے پوری قوم واقف ہے ۔عدلیہ کو جس طرح استعمال اور رسوا کیا گیا وہ بھی پوری قوم جانتی ہے۔ لیکن سب کچھ 25جولائی کو نہیں ہوا ۔ اس سے قبل دیگر جماعتوں کے لوگوں کو بلیک میل کرکے اور جیلوں میں ڈال کر پی ٹی آئی میں شمولیت پر مجبور کیا گیا ۔ تب مسلم لیگ (ن) ، جماعت اسلامی ، ایم کیوایم اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ وہ سلوک ہوتا رہا جو اِس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے ۔ تب پی ٹی آئی کے لوگ فوج اور اس کی ایجنسیوں کی شہ پر اتراتے اور ہم جیسے غریبوں کو دھمکاتے رہے ۔پیپلز پارٹی اور جے یوآئی بھی دبائو میں رہیں لیکن ذہین ترین ہونے کی وجہ سے ان دونوں جماعتوں کی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے لین دین کرکے اپنے آپ کو طریقے سے بچاتی رہی ۔ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے اپنے نعروں اور دستور کو ایک طرف رکھ کر دوسروں کے اشاروں پر حکومت کرنا شروع کردی ۔ کچھ فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی رہی ۔ سرآئینہ ان کا عکس تھا اور پس آئینہ اسٹیبلشمنٹ تھی ۔ اہم تقرریاں انہوں نے اپنی اہلیہ کے خوابوں اور اشاروں پر کردیں۔ خارجہ پالیسی وہ گولڈ اسمتھ اور جیریڈ کروشنر جیسے لوگوں کے اشاروں پر چلاتے رہے ۔ اپنی طرف سے انہوں نے حکومتی ٹیم میں جو لوگ شامل کئے وہ تین قسم کےتھے ۔ ایک وہ جو ان کے اے ٹی ایمز تھے ۔ دوسرے وہ جو مختلف شہروں اور مختلف ملکوں میں ان کے ذاتی خدمت گزار رہے تھے اور تیسرے وہ جو آئی ایم ایف یا مغربی لابی نے ان کے پاس بھیجے تھے ۔چنانچہ جب تک وہ اقتدار میں رہے انہوں نے نہ قانون کا خیال رکھا ، نہ اخلاقیات کا اور نہ قوم کی ضروریات کا ۔ ان کی ترجیح سیاست اور صحافت میں موجود اپنے مخالفین کو زیر کرنا رہی۔ انہوں نے سیاسی ، معاشرتی اور صحافتی کلچر کو تباہ اور پولرائز کرلیا۔ وہ سیاسی مقاصد کیلئے ریاستِ مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن ٹیم ایسے لوگوں پر مشتمل بنائی کہ جن کے کردار کو دیکھ کر شیطان بھی شرما جائے ۔ جہانگیر ترین سے لے کر محسن بیگ تک ایک ایک محسن کے گریبان میں ہاتھ ڈالتے رہے اور آخر میں اپنے سب سے بڑے محسن یعنی فوج سے بھی اپنی اہلیہ اور مغربی طاقتوں کی شہ پر لڑ پڑے ۔ چنانچہ ان کا وہ حشر ہوا جو ایک تخلیق کا اپنے خالق سے لڑائی کی صورت میں ہوتا ہے ۔ عمران خان تو اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن انکے سر سے سرپرستی کا ہاتھ اٹھ جانے کے بعد اپوزیشن کیلئے راستہ صاف ہوگیا اور موقع سے فائدہ اٹھا کر میاں شہباز شریف کی قیادت میں مرکز میں تمام جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم ہوئی۔ ہمارا خیال تھا کہ عمران خان دور کے جبروستم سے ان جماعتوں نے کچھ سبق سیکھا ہوگا لیکن افسوس کہ نئی حکومت میں شامل جماعتیں پی ٹی آئی کے نقش قدم پر چلنے لگیں ۔ ایک سال میں کرپشن کی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ لوگ پی ٹی آئی کے دور کو بھولنے لگے ۔ سب سے افسوسناک بات یہ تھی کہ اب کی بار جے یو آئی مرکز میں پیپلز پارٹی سے بازی لے گئی ۔ بہ ہرحال جیسے تیسے اس حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور اب چند روز بعد مرکز میں بھی الیکشن کرانے کیلئے نگران حکومتیں قائم ہورہی ہیں لیکن بدقسمتی سے مثبت سیاست سے مقابلہ کرنے کی بجائے اب پی ٹی آئی مخالف جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ 2023کی پی ٹی آئی بن جائیں اور جس بے شرمی اور غیراخلاقی انداز میں عمران خان اقتدار پر فائز ہوئے تھے ، اسی انداز میں یہ لوگ بھی فائز کروائےجائیں ۔ اس کی ایک واضح مثال بعض لوگوں کی اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی خواہش ہے ۔ نگران وزیراعظم کے لئے پہلی کوالیفکیشن غیرجانبداری ہے۔ ان جماعتوں کا پی ٹی آئی بننے کی خواہش کا دوسرا نمونہ خیبر پختونخوا میں نگران حکومت کے نام پر قائم نااہل ، کرپٹ ترین اور سیاسی لیڈروں کے اے ٹی ایمز پر مشتمل حکومت ہے ۔ جس طرح کچھ لوگ مرکز میں میاں نواز شریف کے سمدھی کو نگران وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں ، اسی طرح خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمان نے میرٹ کو پامال کرکے اپنے سمدھی حاجی غلام علی کو گورنر بنایا۔ اب وفاق اور کے پی حکومت میں مولانا کے ساتھ بیٹھے اے این پی کے ایمل ولی خان ، پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی اور مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور اہم رہنما اختیار ولی بار بار کہہ رہے ہیں کہ صوبے کا ڈیفیکٹو وزیراعلیٰ حاجی غلام علی ہیں جبکہ وہ جے یو آئی پر کرپشن اور میرٹ کی خلاف ورزی کے بھی بدترین الزامات لگارہے ہیں (حاجی غلام علی کا ان پر بس نہیں چلتا تو جگہ جگہ میرے خلاف تقریریں کرکے کہہ رہے ہیں کہ سلیم صافی امریکی ایجنٹ ہے لیکن میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جھوٹ بولنے اور سوشل میڈیا ٹرولنگ میں جتنا بھی آگے چلے جائیں پی ٹی آئی تک نہیں پہنچ سکتے اور اگر وہ مجھے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر فتووں اور ٹرولنگ سے خاموش نہیں کراسکی تو آپ بھی کبھی نہیں کراسکیں گے)۔ مذکورہ تینوں جماعتوں کے مذکورہ رہنما خود کہہ رہے ہیں کہ کابینہ میں ہمارے تین تین جبکہ جے یو آئی کے ایک درجن سے زائد وزیر ہیں۔ یہ صوبہ بدترین حالت جنگ میں ہے لیکن یہ لوگ عہدوں پر جھگڑوں اور لوٹ مار میں لگے ہیں اور امن وامان کے مسئلے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ جے یو آئی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہے اور عسکریت پسندی کے ایشو سے متعلق اس کا کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ یوں وقت کا تقاضا ہے کہ صوبے میں متنازع گورنر اور متنازع سیاسی کابینہ کو ہٹا کر ٹیکنو کریٹس پر مشتمل غیر جانبدار کابینہ بنائی جائے۔ حالات اور قرائن یہ بتارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات یوں بھی متنازع ہوں گے اور اگر غیرجابندار کی بجائے اسی طرح کی واضح اور جانبدار حکومتوں کی موجودگی میں انتخابات کرائے گئے تو یہ ملک کیلئے تباہ کن ہونگے۔ باقی مرضی ہے مرضی چلانے والوں کی ۔وماعلینا الاالبلاغ