پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے مگر…

ان کی ذات میں بھی میری طرح کئی خامیاں ہوں گی اور کئی حوالوں سے میں ان کا ناقد بھی رہا ہوں لیکن وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کچھ حوالوں سے دیگر وزیروں سے منفرد ہیں ۔ وہ شارٹ ٹرم منصوبوں پر تالیاں بجوانے کی بجائے لانگ ٹرم منصوبہ بندی پر یقین رکھتے ہیں ۔ پہلی مرتبہ حکومت میں وزیر بنے تو ویژن 2010کا منصوبہ بنایا جسے مشرف نے خاک میں ملا دیا ۔ دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو ویژن 2025 کا منصوبہ بنایا جسے باجوہ نے عمران خان کو مسلط کرکے دریابرد کردیا۔ اب کی بار انہیں زیادہ موقع نہیں ملا لیکن کچھ مدات میں منصوبہ بندی کے ساتھ سی پیک کو دوبارہ فعال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ مغرب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور چین کو قریب سے دیکھ چکے ہیں اس لئے پڑھے لکھے لوگوں کی قدر کرتے ہیں اور شاید واحد وزیر ہیں جنہوں نے اپنی وزارت میں عدنان رفیق کی قیادت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروپ بنا دیا ہے جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ پاکستان گورننس فورم جس کے روح رواں ڈاکٹر عدنان رفیق ہیں ۔ اس فورم کے زیراہتمام احسن اقبال صاحب کی وزارت نے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے دنیا بھر سے اور پاکستان کے اندر سے مختلف موضوعات کے ماہرین کو جمع کیا تھا ، جنہوں نے پاکستان کے اصل مسائل کی تشخیص اور انکے حل کیلئےاپنی تجاویز پیش کیں ۔ اس کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس کے مقررین اور سامعین دونوں میں کسی مخصوص پارٹی یا ذہنیت کے حامل لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا بلکہ دائیں اور بائیں بازو یا کنزرویٹو اور لبرل کی تفریق کئے بغیر میرٹ پر ماہرین کو بلایا گیا تھا۔ سب کو کھل کر بولنے اور کھل کر سوال کرنے کی اجازت تھی اور اگر مرتب کردہ تجاویز کو آنیوالی حکومت اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے تو پاکستان میں مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ۔ اس کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کے دوران احسن اقبال اور گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے چند ایسی باتیں بتادیں کہ جن کے ذریعے دریا کو کوزے میں بند کیا گیا تھا۔ احسن اقبال نے سوال اٹھایا کہ کیا وجہ ہے کہ اس بگڑے ہوئے پاکستان میں ہم ایٹمی طاقت بننے کے قابل ہوئے اور پھر خود ہی اس کا جواب بھی دیا جو انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور انکےساتھیوں نے بتایاتھا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھیوں سے ملا اور ان کے سامنے یہ سوال رکھا کہ پاکستان جیسے ملک میں انہوں نے یہ کارنامہ کیسے سر کیا تو اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر اور ان کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ پانچ وجوہات کی بنیاد پر ہماری آرگنائزیشن پاکستان کی باقی آرگنائزیشنز سے مختلف تھی اور اس لئے ہم یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پہلا یہ کہ مجھ (ڈاکٹر قدیر)سے لے کر کلاس فور ملازم تک جتنے بھی لوگ ایٹمی پروگرام سے منسلک رہے ، انہوں نے اپنے کام کو مزدوری نہیں بلکہ مشن سمجھ کر کام کیا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے ادارے میں کسی سیکشن کے چیئرمین کی مدت ملازمت چھ سال سے کم نہیں تھی اور یہ کام نہیں تھا کہ آج ایک صاحب کو کسی سیکشن کا سربراہ بنا دیا اور کل دوسرے کو ۔ تیسرا یہ کہ ہم نے ہر سطح پر میرٹ کو یقینی بناکے رکھا اور کسی قسم کی سفارش یا اقربا پروری نہ چلنے دی۔چوتھا یہ کہ ہم نے مشینوں کی بجائے انسانوں کو اہمیت دی ۔ ہم نے اچھا ہیومن ریسورس جمع کیا ۔ ان کو کام کے اچھے مواقع دئیے اور پھر وہی انسان مشینیں بناتے اور تلاش کرتے رہے جبکہ پانچویں چیز یہ تھی کہ مشن سونپ کر ریاست اور حکومتوں نے ہم پر اعتماد کیا اور ہمارے کام میں مداخلت نہ کی ۔نہ ڈاکٹر قدیر خان فرشتہ تھے اور نہ ان کے ساتھی آسمان سے اترے تھے۔ وہ بھی اس بدحال پاکستان میں رہتے اور اخلاق باختہ قوم کا حصہ تھے لیکن ان پانچ وجوہات کی بنیاد پر وہ اتنا بڑاکارنامہ سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جو اس بات کا درس دیتا ہے کہ اگر ہم کسی وزارت ، ڈویژن ادارے میں ان پانچ اصولوں کو اپنا لیں تو اس بگڑے ہوئے پاکستان میں بھی وہ ناقابل یقین مثبت نتائج دے سکتا ہے ۔

اس اختتامی سیشن میں احسن اقبال سے قبل گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے اپنے تجربات سے حاظرین کو آگاہ کیا۔ حافظ صاحب ماضی قریب میں پاکستان کے محروم ترین علاقے یعنی گلگت بلتستان کے کامیاب ترین وزیر اعلیٰ رہے ۔ان کے وزیراعلیٰ بننے سے قبل گلگت بلتستان میں شیعہ سنی فساد روز کا معمول تھے لیکن دین کا علم رکھنے والے حافظ صاحب نے کمال حکمت سے اس مسئلے کو ایسا حل کیا کہ ان کے پورے پانچ سال میں ایک بھی فرقہ وارانہ فساد نہ ہوا۔ ان کی کابینہ میں شیعہ سنی رہنما ایک ساتھ بیٹھے رہے ۔اسی طرح ان کے دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اور اگر درمیان میں انہیں ڈنڈے کےزور پر ہٹا کر تبدیلی کا ڈرامہ نہ رچایا جاتا تو آج شاید گلگت بلتستان کی حالت بہت بہتر ہوتی ۔ حافظ صاحب نے بتایا کہ گلگت بلتستان بہت وسیع و عریض علاقہ ہے لیکن آبادی کم تھی اس لئے بعض علاقوں تک سرکار پہنچ ہی نہیں سکتی تھی ۔ چنانچہ ہم نے مزید ضلعے اور چھوٹے یونٹ بنائے ۔ ایسے اضلاع جہاں ڈپٹی کمشنریا ایس پی سال میں ایک مرتبہ جاتا تھا، ضلع بن جانے کی وجہ سے وہ وہاں مستقل بیٹھ گیا۔ جس نے سرکار کی گرفت مضبوط کرانے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد دی ۔ دوسرا کام میں نے یہ کیاکہ گلگت شہر ،جو جرائم اور فرقہ وارانہ تصادم کا مرکز تھا ،میں ہم نے سیف سٹی تعمیر کی اور جگہ جگہ کیمرے لگائے (واضح رہے کہ لاہور کے بعد پاکستان میں دوسرا کامیاب سٹی پروجیکٹ گلگت میں ہے) جس کی وجہ سے امن و امان میں خلل ڈالنے والوں کی گرفت میں آسانی ہوئی اور جرائم نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔تیسرا کام میں نے یہ کیا کہ یونین کونسل کی سطح پر معاملات اور مسائل نمٹانے کا میکنزم بنایا۔چوتھا کام مسجد اور مدرسے پر خاص توجہ دی جبکہ پانچواں کام یہ کیا کہ یہ رولز بنائے کہ ہر محکمے کا سیکرٹری تین سال کیلئےلگے گا۔ تین سال سے قبل اس کو بلاوجہ نہیں ہٹایا جائے گا اور ہر سیکرٹری کی کارکردگی کا ہر چند ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔ اس عمل سے نہ صرف انتظامی اور ترقیاتی کاموں میں تسلسل رہا بلکہ ہر سیکرٹری شارٹ ٹرم کی بجائے لانگ ٹرم منصوبے بھی بناتا رہا جبکہ وہ سیاسی دبائو بھی نہیں لے رہا تھا۔ان دو مثالوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن اس کیلئےذاتی خواہشات کی قربانی دے کر اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔