نگران حکومت کیسی ہونی چاہئے؟

ہمارا حکمران طبقہ ذاتی کاروبار چلانے، دولت کمانے اور اختیار حاصل کرنے میں جس قدر ذہین اور شاطر ہے ،اس قدر قومی حوالوں سے نادان واقع ہوا ہے۔ذات اور خاندان کیلئے وہ بہت لمبی منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن ملک چلاتے وقت وہ کوئی طویل منصوبہ بندی نہیں کرتا۔ اس کی ایک عادت یہ بن گئی ہے کہ اب وہ قرض کو بھی آمدن سمجھنے لگا ہے اور ہر حکمران یہ سوچ کرقرضے لیتا اور خرچ کرتا ہے کہ آنے والا جانے اور اس کا کام جانے۔ لیکن عمران خان کی حکومت نے اس حوالے سے ملکی معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا،اس کی مثال نہیں ملتی۔ تباہی کا آغاز اسد عمر نے کیا تھا۔ وہ معیشت دان نہیں بلکہ مارکیٹنگ کے آدمی ہیں اور مارکیٹنگ بھی اپنے پروڈکٹ کی نہیں بلکہ اپنی ذات کی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان اور قوم کے سامنے اپنی مارکیٹنگ ایک ماہر معیشت اور مسیحا کے طور پر کی تھی لیکن وزیرخزانہ بننے کے بعد اپنے آپ کو تیس مار خان ثابت کرنے کی خاطر انہوں نے آئی ایم ایف سے بروقت ڈیل نہ کی۔ اس کے بعد عمران خان کی حکومت نےآئی ایم ایف کے بندوں کو لاکر مالی معاملات ان کے سپرد کئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ عمران خان حکومت کا وفد مذاکرات کررہا تھا تو اس کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ آئی ایم ایف کے نمائندوں سے آئی ایم ایف کے نمائندے مذاکرات کرکے پاکستان کے معاشی مستقبل کے فیصلے کررہے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ انتہائی سخت شرائط پر معاہدہ کرلیا ۔ دوسری طرف تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لئے لیکن ان قرضوں کو پروڈکٹو منصوبوں (مثلا ڈیم بنانا، انفراسٹرکچر بنانا وغیرہ ) کی بجائے وقتی طور پر عوام کو متوجہ کرنے والے منصوبوں میں لگایا۔ چونکہ ان کی حکومت میں نہ نیب کا خوف تھا، نہ ایجنسیوں کا اور نہ میڈیا کا ، اس لئے کرپشن زوروں پر تھی۔ چنانچہ لوگ حیران ہیں کہ وہ قرضے کہاں خرچ ہوئے؟ دوسری طرف ان کی حکومت کا حصہ رہنے والے شبر زیدی جیسے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے دور میں ملک عملاً ڈیفالٹ کرچکا تھا لیکن عمران خان نے یہ سفاکانہ اور شاطرانہ چال چلائی کہ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے تو انہوں نے وقتی طور پر عوام کے دل جیتنے کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے وعدوں کے الٹ عمل کرنا شروع کردیا۔ مثلاً وعدہ کیا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں بڑھائیں گے لیکن آخری مہینے میں جاتے ہوئے الٹ کام کرکےتیل سستا کردیا۔ یوں پاکستانی ریاست آئی ایم ایف کی نظروں میں دھوکے باز اور وعدہ خلاف بن گئی۔ چنانچہ جب مخلوط حکومت برسراقتدار آئی تو اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کا تھا۔ افغانستان سے نکل جانے کے بعد امریکہ کی پاکستان سے متعلق واحد محتاجی ختم ہوگئی تھی اور چین کے تناظر میں وہ پاکستان سے ناک رگڑوانا چاہتا تھا کہ وہ چین کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ سے باز آجائے ۔ چنانچہ اس نے آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو خوب دیوار سے لگادیا۔ المیہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی سرٹیفکیشن نہ ہو، تو دنیا کے دیگر ممالک بھی مدد کرنے کو نہیں آتے جبکہ اس دوران ہر ملک کی معیشت اپنی اپنی جگہ دبائو میں تھی۔ اسی وجہ سے شہباز شریف حکومت کو انتہائی غیرمقبول فیصلے کرنا پڑے ۔ مہنگائی، بجلی اور تیل کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھانی پڑیں ۔ پہلے روایت یہ تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاجاتا اور پھر آنے والے وقتوں میں حکومت ان شرائط کو پورا کرتی تھی لیکن اب کی بار آئی ایم ایف نے عمران خان دور کی وعدہ خلافی کی آڑ لے کریہ موقف اپنایا کہ پہلے شرائط پوری ہوں گی پھر معاہدہ ہوگا۔ چنانچہ شہباز حکومت نے جون تک تمام شرائط ،جو انتہائی سخت تھیں،پر عمل کیا لیکن اس کے باوجودعالمی ادارہ معاہدہ کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا اس دوران ایک طرف تو پاکستان کی جانب سے امریکہ کو بیک ڈور چینل سے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر مقصد یہ ہو کہ پاکستان کو چین کے ساتھ دوستی سے باز رکھاجائے تو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ پاکستان ماضی کی طرح امریکہ اور چین کو ساتھ ساتھ چلانا چاہتا ہے اور مغرب سے بھی دشمنی نہیں چاہتا لیکن اگر امریکہ اس لئے ناک رگڑوانا چاہتا ہے کہ پاکستان چین کوچھوڑ دے تو یہ کام کبھی نہیں ہوگا۔ دوسری طرف چین بھی اس گیم کو سمجھ گیا اور اس نے پاکستان کی ایسی مدد کی کہ آئی ایم ایف کے بلیک میل کرنے کی صلاحیت کم ہوگئی۔ اسی طرح سعودی عرب اور یواے ای جیسے دوستوں نے بھی کماحقہ پاکستان کو سپورٹ کیا۔ بالآخر آئی ایم ایف کے ساتھ ابتدائی ڈیل ہوگئی اور پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ نہ صرف ٹل گیا بلکہ اب عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی کسی حد تک بحال ہوگا۔اب نقاد اعتراض اٹھارہے ہیں کہ یہ عجیب حکومت ہے کہ جو سخت شرائط کے ساتھ قرض مل جانے کا جشن منارہی ہے حالانکہ اس کی وجہ سمجھ سے بالاتر نہیں ۔ وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی بھرپور کوشش کررہی تھی اور ہر حربہ استعمال کررہی تھی کہ آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہو، جب کہ حکومت ڈیل کیلئے کوشاں تھی۔ یوں چونکہ حکومت کی جیت ہوئی ہے اس لئے وہ جشن منارہی ہے ۔ دوسرا وہی قرض کو آمدن سمجھنے کی نفسیات بھی موجود ہے ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم نے ماضی کی روش کو نہ چھوڑا ۔ بنیادی معاشی اصلاحات نہ کیں تو کچھ عرصہ بعد دوبارہ ڈیفالٹ کا خطرہ ہوگا اور آئی ایم ایف جیسے ادارے ہم سے اس سے بھی سخت شرائط منوائیں گے۔

اس لئےسردست پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ وفاق میں نگران حکومت سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ میرٹ پر بنائی جائے جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی نگران حکومتوں میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔تمام نگران اور بالخصوص وفاقی نگران حکومت میں ایسے لوگ شامل ہوں جو معیشت کو توسمجھتے ہوں لیکن ان کا کسی مافیا سے تعلق نہ ہو۔ وہ ایسی حکومت ہو جو ٹیکس نیٹ بڑھا سکے ۔ غیرروایتی فیصلے کرسکے ۔ بڑے بڑے مافیاز پر ہاتھ ڈال سکے ۔ صرف تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینے کی بجائے تاجروں اور صنعتکاروں سے کماحقہ ٹیکس لے سکے۔یہ کام سیاسی حکومتوں کی بجائے نگران حکومت اس لئے بہتر طریقے سے کرسکتی ہےکیونکہ تمام بڑی جماعتیں بشمول جے یو آئی کو مختلف مافیاز نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ان مافیاز کے نمائندوں نے پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو بھی یرغمال بنارکھا ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی حکومت ان سے ٹیکس لینے کی بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگاتی ہے جو امیر اور غریب یکساں ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ میرے نزدیک پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نگران حکومت ایسے لوگوں کی بنائی جائے کہ جو کسی پارٹی اور کسی مافیا کے زیراثر نہ ہوں، جو سخت ترین اسٹرکچرل اور معاشی اصلاحات کر سکیں۔