معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
2014ء سے بدتر عسکریت پسندی کا اندیشہ
سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو دوبارہ عروج کیسے حاصل” ہوا ؟میرے نزدیک پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ جب افغانستان میں ان کے بڑے یعنی افغان طالبان نیٹو فورسز کو شکست دے کر فاتح بن کر ابھرے تو پاکستانی طالبان کا مورال بھی بلند ہوا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ہم اگر امریکہ اور نیٹو کو شکست دے سکتے ہیں تو پاکستانی فورسز سے لڑنا کون سی بڑی بات ہے؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے چار پانچ ہزار لوگ پہلے سے افغانستان میں تھے۔ چار پانچ ہزار افغان حکومت کی جیلوں میں تھے اور جب طالبان نے جیلیں تڑوادیں تو ان سے کم و بیش اتنی ہی تعداد میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی رہا ہوئے جن میں مولوی فقیر محمد جیسے اہم لوگ بھی شامل تھے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سلیپر سیلز کی صورت میں انفرادی یا گروپوں کی شکل میں ٹی ٹی پی کے جو لوگ خاموش بیٹھے تھے وہ بھی افغانستان جاکر ٹی ٹی پی سے جا ملے بلکہ مذہبی رجحان رکھنے والے ہزاروں مزید نوجوان بھی وہاں چلے گئے۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ پہلے ٹی ٹی پی کئی دھڑوں میں بٹ چکی تھی لیکن مفتی نور ولی کی قیادت میں وہ اکٹھی ہوگئی ۔ ایک مفتی اور پڑھا لکھا شخص ہونے کے ناطے مفتی نور ولی میں قیادت کی صلاحیت زیادہ ہے جب کہ محسود ہونے کیساتھ ساتھ افغان طالبان سے بھی ان کی بہت قربت ہے۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ پہلے ٹی ٹی پی کے لوگ ڈرون وغیرہ کی وجہ سے افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے تھے ۔ڈرون کی وجہ سے ان کا آپس میں مل بیٹھنا اور رابطہ کرنا مشکل تھا لیکن امریکی افواج کے نکلنے کے بعد ڈرون حملوں اور گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا اور وہ افغانستان کے شہروں میں آکر آزادانہ پھرنے اور اجلاس منعقد کرنے لگے۔چھٹی وجہ یہ تھی کہ جہاں جہاں ٹی ٹی پی کے لوگ تھے، وہاں وہاں امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا ہوا مال غنیمت افغان طالبان نے انہیں دے دیا ۔ یوں نیٹو کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیار بھی انکے ہاتھ آگئے جب کہ مالی وسائل بھی بہت بڑھ گئے ۔اب سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی، سوات، وزیرستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں کیسے واپس آئی اور پھر معاملات بگڑے کیوں؟اسکا جواب یہ ہے کہ ہم جیسے طالب علم التجائیں کرتے رہے کہ اب چونکہ افغان طالبان ایک تنظیم نہیں بلکہ حکومت بن گئے ہیں اور چونکہ ٹی ٹی پی ان کے تابع ہے اس لئے ٹی ٹی پی کے ساتھ جو بھی بات ہو، وہ افغان امارات اسلامی کے ذریعے کی جائے۔ افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کا بھی یہی مؤقف تھا، اسلئے وہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کے کسی عمل میں نظر نہ آئے۔لیکن ایسا کرنے کی بجائے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اجازت یا ہدایت دی ۔ان کی طرف سے افغان طالبان سے کہا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو ہمارے ساتھ مذاکرات کیلئے بٹھائیں۔ چنانچہ عمران خان کی حکومت میں ٹی ٹی پی کی قیادت اور پاکستانی حکام آمنے سامنے ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔“یہ میرے اس کالم کا ابتدائیہ تھا جو 12اکتوبر 2022ءکو روزنامہ جنگ میں ”ٹی ٹی پی کی واپسی۔ ذمہ دار کون؟“ کے زیر عنوان شائع ہوا اور میں آج بھی اس رائے پر قائم ہوں کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کا نیا جنم اور عروج افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام سے حاصل ہوا ۔ میں کل بھی ٹی ٹی پی کو ٹی ٹی اے کی ذیلی تنظیم سمجھتا تھا اور آج بھی سمجھتا ہوں ۔ اسلئے عمران خان ہوں کہ مولانا فضل الرحمان ، جو بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت اور جمہوریت کی بجائے خلافت کے قیام کا متمنی تھا ، اسے زیب نہیں دیتا کہ واویلا کرے۔پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی یا اے این پی کے رہنما صرف عمران خان اور جنرل فیض کو الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرکے ان کی ایک بڑی تعداد کو واپس لابسایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیرسٹر سیف کی قیادت میں صوبے کے قبائلی ملکانان پر مشتمل وفد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے جب افغانستان جارہا تھا تو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جرگہ غلط کررہا تھا تو انہوں نے اسے روکا کیوں نہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ پختون قربان ہورہے ہیں لیکن یہ مسئلہ پختون کا بنایا ہوا ہے اور نہ تنہا پختون حل کرسکتے ہیں ۔ یہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو اسلام آباد اور پنڈی میں افغانستان سے متعلق بنتی رہیں۔ اب مولانا فضل الرحمان نے سانحہ کے بعد پختونوں کا جرگہ بلایا لیکن مسئلے کی کنجی تو اسلام آباد اور پنڈی میں ہے۔ پختونوں کے جرگے اس معاملے میں بے بس ہیں ۔ افغان پالیسی بنانا، آپریشن یا مذاکرات کا فیصلہ کرنا، طالبان حکومت سے ڈیلنگ اور افغان مہاجرین سے متعلق پالیسیاں بنانا سب کچھ پنڈی اور اسلام آباد میں ہورہاہے تو پھر جرگہ جرگہ کھیلنے کی کیا ضرورت؟۔ ان لیڈروں کی تو اس معاملے میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ بلاول بھٹو نے بطور وزیرخارجہ پورے دور میں افغانستان کا دورہ تک نہیں کیا۔ پشاور دھماکے کے بعد ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن آج تک وہ اجلاس نہیں بلایا گیا۔اس معاملے میں پوری ریاست کا کردار ایک طرف جبکہ تنہا سابق نمائندہ خصوصی صادق خان کا کردار دوسری طرف تھا۔ بڑی حد تک معاملات انہوں نے کنٹرول رکھے تھے لیکن وفاقی اسٹیک ہولڈرز کے کردار سے مایوس ہوکر انہوں نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ اس لئے مولانا صاحب اگر قضیے کے حل میں سنجیدہ ہیں تو پشاور میں بے بس پختونوں کے جرگہ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلام آباد کے وزیراعظم ہائوس میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور سول ملٹری قیادت کو ساتھ بٹھائیں۔ کہا جاتا ہے کہ باجوڑ دھماکہ داعش نے کیا لیکن داعش اس گیم کا ایک معمولی حصہ ہے ۔ داعش نے اگر یہ ایک کارروائی کی ہے تو ٹی ٹی پی نے ہزاروں کارروائیاں کی ہیں۔ افغانستان کی امارات اسلامی اور ٹی ٹی پی نے سخت الفاظ میں سانحہ باجوڑ کی مذمت کی لیکن ہر روز پاکستانی فورسز کیخلاف یا امیر مقام جیسے لوگوں کیخلاف ٹی ٹی پی جو کارروائیاں کرتی اور ذمہ داریاں قبول کرتی ہے، انکی کبھی امارات اسلامی نے مذمت نہیں کی۔ اسلئے اگر کوئی جرگہ ہونا ہے تو اس میں اس بنیادی سوال کا جواب دینا ہوگا کہ امارات اسلامی افغانستان اور اسکے امیرالمومنین کو اپنا امیرالمومنین ماننے والے ٹی ٹی پی کے بارے میں کیا پالیسی ہونی چاہئے؟ کیونکہ قضیے کے حل کی کنجی امارات اسلامی اور اسکے امیرالمومنین ملا ھبتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ واضح رہے کہ کوئی حل نہ نکالا گیا تونہ صرف اگلا الیکشن تاریخ کا سب سے خونی الیکشن ہوگا بلکہ خاکم بدہن صورتحال اتنی خراب ہوسکتی ہے کہ ہم 2014ء کو بھول جائینگے۔