جنرل عاصم منیر، اپنے اصل روپ میں

جنرل سید عاصم منیر آرمی چیف بننے سے قبل انڈین سرحد پر جی او سی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی آئی ایس آئی، کورکمانڈر گوجرانوالہ اور کوارٹر ماسٹر جنرل کے مناصب پر بھی فائز رہے تھے لیکن چونکہ جنرل قمرجاوید باجوہ یا جنرل فیض حمید کے برعکس وہ تعلق کا بہت محدود حلقہ رکھتے ہیں اور متعلقہ لوگوں یا قریبی دوستوں کے سوا، غیرمتعلقہ لوگوں کے ساتھ میل ملاپ سے گریزاں رہتے ہیں ، اس لئے ان کی شخصیت اور نظریات کے گرد تجسس اور مفروضوں کا ایک ہالہ بنا ہوا تھا۔

آرمی چیف بننے کے بعد بھی انہوں نے میڈیا سے کوئی انٹرایکشن کیا اور نہ سویلین پروگرامز میں نظر آئے ، اس لئے ان کے نظریات اور ترجیحات سے متعلق تجسس برقرار تھا لیکن چند روز قبل کنونشن سنٹر اسلام آباد میں گرین پاکستان پروجیکٹ کے لانچنگ کی تقریب میں ان کی شخصیت اور نظریات کا ایک عکس سامنے آگیا۔

میری معلومات کے مطابق اپنے ارادے کے مطابق انہوں نے اس تقریب میں صرف شرکت کرنی تھی اور خطاب کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لئے لکھی ہوئی تقریر نہیں لائے تھے لیکن کچھ حکومتی شخصیات نے انہیں مجبور کیا کہ وہ خطاب کریں۔

لکھی ہوئی تقریر میں ان کے اسٹاف اور ادارے کا اِن پٹ بھی شامل ہوتا ہے لیکن یہاں چونکہ انہیں فی البدیہہ تقریر کرنی پڑی اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کے دل کی باتیں تھیں۔ لیکن شاید اپنی خلوت پسندی کی عادت کی وجہ سے انہوں نے اپنے خطاب کو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی ۔

ابتدا میں انہوں نے وہاں پر موجود غیرملکی سفارتکاروں اور سرمایہ کاروں کو مخاطب کیا اور ان کیلئے انگریزی میں گفتگو کی ۔

انہوں نے پاکستان کے انسانی اور قدرتی وسائل کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ہم ایک قابل اور اہلیت رکھنے والی قوم ہیں جو ٹاپ پر جانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

پاکستان ترقی کرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی ۔

انہوں نے شرکا کو یقین دلایا کہ اسپیشل انوسٹمنٹ فیسلیٹین کونسل کے زیراہتمام تمام پروجیکٹس اور گرین پاکستان منصوبے کو فوج مکمل سپورٹ کرے گی۔جنرل عاصم منیر نے اپنی تقریر میں اس حقیقت پر پردہ ڈالا کہ گرین پاکستان پروجیکٹ میں ان کا اور ان کے ادارے کا کیا کردار ہے اور صرف بھرپور تعاون فراہم کرنے کے الفاظ پر اکتفا کیا لیکن وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر میں راز سے یہ کہہ کر پردہ اٹھادیا کہ اس پروجیکٹ کا خواب سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے دیکھا تھا اور اس کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے ۔

اس کے بعد جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اب وہ اپنے کسان بھائیوں سے، جو بڑی تعداد میں موجود تھے سے، اردو میں بات کرنا چاہتے ہیں اور اپنی گفتگو کا آغاز کچھ یوں کیا کہ :میں ایک مسلمان کی حیثیت سے بات کرنا چاہتا ہوں اور بطور مسلمان بات کرتے وقت میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ جو ام الکتاب ہے،یعنی قرآن پاک، تو اُس سے رہنمائی لوں۔

اس قرآن میں ہمیں کہا گیا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کو کبھی مایوس نہیں ہونا۔یوسف؛آیت87: ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔ ‘‘

پھر اس کے ساتھ قرآن کے سورہ زمر کی اس آیت کا اضافہ کیا کہ :ترجمہ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارا رب یہ کہتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تھوڑا سا مسئلہ پیش آنے کی صورت میں ہم چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں؟ آخر ہم کیوں صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں؟قرآن پاک کی رو سے تو مسلمان کیلئے صرف دو حالتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور جب خوشی ملتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ۔ اسی قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے کہ : ’’ان اللہ مع الصابرین‘‘یعنی میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں،اللہ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ :’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو اور (خالص) ایمان لے آؤ اور اللہ شکر کی جزا دینے والا ‘ بہت جاننے والا ہے‘‘کیا اللہ نے ہمیں بتایا نہیں کہ اس زندگی کا مقصد ہی آپ کو مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈال کر آپ کو ٹیسٹ کرنا ہے۔

سورۃالعنکبوت ؛آیت 2، کے آغاز میں ہی اُس نے بتا دیا ہے کہ’’ کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کو یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔‘‘ پھر قرآن کی یہ آیت پڑھی کہ ترجمہ۔’’اور بےشک ہم نے اُن سے اگلوں کو جانچا تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا‘‘تو اب جب اللہ نے بتا دیا ہے کہ ہم سب کو آزمائیں گے تو پھر ہم قرآن کی ان تعلیمات کو کیوں بھول جاتے ہیں اور جب تھوڑی سی تکلیف آتی ہے تو ہم چیخنا چلانا کیوں شروع کردیتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان ختم ہوجائے گا، پاکستان تباہ ہوجائے گا، پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا ،پاکستان برباد ہوجائے گا،پاکستان کے ساتھ یہ ہونے والا ہے ، وہ ہونے والا ہے ۔حالانکہ یہ سب پروپیگنڈا ہے ۔ پاکستان کو انشا اللہ کچھ نہیں ہوگا ۔ پاکستان قائم اور سلامت رہے گا۔

مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن اس کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بتا دیا ہےکہ :(سورۃ آل عمران؛آیت139)ترجمہ :’’غم نہ کرو….فکر مت کرو…..تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان لائو۔پھر سورۃ آل عمران میں ہی اللہ نے فرمایا ہے کہ :”اگر تمہیں زخم لگے ہیں تو کیا اُن کو زخم نہیں لگے؟“یعنی اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو کیا تو نے اپنے دشمن کو بھی زخم نہیں لگائے ۔ ہمیں اگر دشمن تکلیف دیتا ہے تو ہم نے اس کو بھی آرام سے نہیں چھوڑا ہے اور اسے بھی تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ جہاں تک اوقات کے الٹ پھیر کا تعلق ہے تو وہ بھی اللہ نے قرآن میں ہمیں پہلے سے بتا دیا ہے کہ :”میں دنوں کو انسانوں کے درمیان میں پھیرتا ہوں“اس لئے حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے ۔اس کشمکش میں تو زندگی ہے ۔ آپ نے دل کے مریض کو مانیٹر کرنے والی مشین دیکھی ہوگی۔ جب تک وہ لکیر اوپر نیچے جاتی ہے تو زندہ رہنے کی علامت ہوتی ہے لیکن جب وہ لکیر سیدھی ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ بندہ مرگیا ہے ۔ یوں یہ اتارچڑھائو اور کشمکش زندہ ہونے کی علامت ہیں ۔ اس کشمکش کے بغیر تو زندگی ہی نہیں ۔

آرمی چیف کی اس فی البدیہہ اور جذباتی تقریر سن کر نہ صرف شرکا حیران رہ گئے بلکہ بالائی حصے میں بیٹھے ہوئے کسان بھائی جذباتی ہوگئے اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کردئیے ۔ جس پر انہیں منع کرتے ہوئے انہوں نے کہ :نہ میں مولوی ہوں، نہ مذہبی لیڈر ہوں۔ قرآن کو میں نے فوجی ڈیوٹی کے ساتھ صرف اپنے شوق سے پڑھا ہےاور اسی سے رہنمائی لیتا ہوں۔