سازش کا شکار عبدالشکور!

عبدالشکور میرا اسکول فیلو ہے وہ بظاہر ایک نارمل سا نوجوان ہے ،میں بچپن سے اب تک اسے دیکھتا چلا آ رہا ہوں ، میں نے آج تک اس کی زبان سے نکلی ہوئی ایک بات بھی غلط ثابت ہوتے نہیں دیکھی، اس نے کبھی ولایت کا دعویٰ نہیں کیا مگر میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ وہ آنے والے واقعات سے بہت پہلے آگاہ ہوتا تھا۔ اس نے پرائمری کا امتحان دیا تو اس نے بڑائی کا کوئی دعویٰ کئے بغیر مجھے کہا عطا میں کسی کے کردارکے بارے میں کوئی منفی رائے دینا پسند نہیں کرتا مگر مجھے کشف ہوا ہے کہ ہیڈ ماسٹر ٹیچر کو ہدایت دے رہا ہے کہ اسے کسی صورت پاس نہیں ہونا چاہئے، عبدالشکور نے یہ بات صرف مجھ سے کہی تھی۔ چنانچہ میرا یہ فرض ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کشف کی جو نعمت اسے عطا کی ہے اس کی گواہی دوں چنانچہ عبدالشکور پوری کلاس میں واحد طالب علم تھا جو فیل ہوگیا بلکہ فیل کردیا گیا۔

ایک اور موقع پر اس پر الزام لگا کہ اس نے کسی دفتر سے جہاں وہ ایک افسر سے ملاقات کے لئے گیا تھا وہ افسرو اش روم میں گیا تو اس دوران عبدالشکور نے بہت قیمتی کانفیڈیشل فائلز چرا لیں۔ عبدالشکور نے مجھے پہلے ہی بتا دیا کہ اس پر یہ گندا الزام لگے گا تاکہ اس کی شہرت کو داغدار کیا جائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اسے گرفتار کرلیا گیا، بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہوگیا اور کچھ عرصے بعد فائلیں چرانے کا کیس بھی دفتر کی فائلوں میں دب کر رہ گیا۔ میں شکور سے کہتا رہتا ہوں کہ تم خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ وہ تمہیں کسی ایسے مقام پر فائز کردے جہاں گندی ذہنیت کے لوگوں کو تم پر الزام لگانے کی جرأت ہی نہ ہو۔ اس نے کہا کہ میرے مقام اور مرتبے کو صرف تم جانتے اور سمجھتے ہو، عام پبلک تو بے خبر ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ تم اپنی روحانی وارداتوں کے ذکر و اذکار کے لئے سوشل میڈیا کو استعمال کرو، چنانچہ اس نے یو ٹیوب پر ’’اندر کی باتیں‘‘ کے عنوان سے وی لاگ شروع کردیا۔ ہمارے ہاں ہر شخص اندر کی بات جاننا چاہتا ہے، چنانچہ بہت جلد اس کے ویوورز کی تعداد ملینز تک جا پہنچی۔ اس کے وی لاگ میں سیاست دانوں کے کپڑے اتارے جاتے تھے اور ان کے متعلق ایسی باتیں کہی جاتی تھیں جن پر پبلک فوراً یقین کرلیتی تھی۔ میں نے ایک دن شکور سے کہا برادر میں تمہاری روحانی قوتوں سے پوری طرح واقف ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تم جس کے بارے میں جو کچھ بھی کہتے ہو وہ من و عن صحیح ہوتا ہوگا لیکن کچھ سیاستدانوں کو میں جانتا ہوں وہ اتنے برے نہیں، جتنا برا تم نے انہیں قرار دیا ہے۔ عبدالشکور نے جواب دیا ’’جو میں دیکھ سکتا ہوں اور جان سکتا ہوں وہ نظر تمہارے پاس نہیں ہے‘‘۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ جو کہتا ہے صحیح کہتا ہے۔

اس دوران ایک روز ایک اجنبی اس کے پاس آیا اور کہا کہ تم قومی اسمبلی کا الیکشن لڑو، انکسار کے مجسمے عبدالشکور نے کہا ،سر میں ایک معمولی آدمی ہوں مجھے ووٹ کون دے گا، یہ سن کر اس اجنبی نے کہا تم نے اپنے وی لاگ میں جس طرح گندے سیاست دانوں کی اصل شکلیں لوگوں کو دکھائی ہیں ہمیں تم ایسے لوگوں ہی کی ضرورت ہے جو ملک و قوم کے ان غداروں کی اصلی شکلیں لوگوں کو دکھائیں اور ہمیں تمہاری کارکردگی بہت پسند آئی ہے۔ اس پر عبدالشکور نے کہا، سر آپ کا بہت شکریہ مگر الیکشن لڑنے کے لیے بے پناہ سرمایہ اور کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ سن کر وہ اجنبی ہنسا اور کہا ،’’یہ سب ہماری ذمہ داری ہے، بس تم الیکشن لڑنے کی تیاری کرو۔‘‘ میرے خیال میں یہ بھی عبدالشکور کی کرامت تھی کہ ایک غیبی فرشتہ اس کے پاس آیا اور اس کے رستے کی ساری مشکلات ختم کر دیں۔

سو عبدالشکور بطور امیدوار الیکشن میں کھڑا ہو گیا اس کے جلسے میں نجی طور پر ہزاروں لوگ شریک ہوئے ، اس کی تقریروں کا موضوع غدار سیاستدان ہی ہوتے تھے، وہ ان پر کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے کا الزام لگاتا اور اگلے روز یہ سارے الزامات اخبارات کی جلی سرخیوں کی صورت میں عوام کے علم میں اضافہ کرتے، بالآخر وہ دن آ گیا جس دن الیکشن منعقد ہونا تھے۔ عبدالشکور کے کیمپ میں پرچیاں بنانے والوں کا رش لگا ہوا تھا اور یوں اس کی کامیابی یقینی نظر آتی تھی، میں عبدالشکور کو ڈھونڈتا ڈھانڈتا ایک گلی میں پہنچا جہاں وہ اپنے ووٹروں سے مل رہا تھا میں نے اسے کہا ایک منٹ کے لیےمیری بات سنو وہ اپنے ووٹروں سے الگ ہو کر بولا، کیا بات ہے؟ میں نے کہا تم جانتے ہو اللہ والوں کا قرب بھی انسان کو کچھ علم ودیعت کر دیتا ہے، اس نے کہا اس میں کیا شبہ ہے۔ میں نے جواب دیا اس مرتبہ مجھے کشف ہوا ہے کہ تم ہار رہے ہو۔ اس نے پریشان ہو کر کہا، وہ کیسے؟اس پر غیب سے ایک آواز سنائی دی کہ اس بار وہی جیتے گا جو جیت کا حق دار ہوگا اور ساتھ یہ بھی آواز سنائی دی کہ فیصلہ بدل دیا گیا ہے کہ اب ہم نیوٹرل ہیں ،عبدالشکور نے کہا، ’’یہ آواز تو اس اجنبی کی لگتی ہے جس نے مجھے الیکشن میں کھڑا کیا تھا ۔‘‘میں نے جواب دیا میں تو اس کی آواز نہیں پہچانتا مجھے تو بس یہ کشف ہوا تھا کہ اس بار صرف جیتنے والے جیتیں گے اور ہارنے والے ہاریں گے۔ یہ سن کر عبدالشکور نے چیخ کر کہا، میں اس بکواس کو نہیں مانتا یہ میرے خلاف سازش ہوئی ہے، عبدالشکور پہنچا ہوا انسان ہے اس نے اگر یہ بات کہی ہے تو یونہی نہیں کہی ہو گی یا خدا ہمارے ہاں یہ سازشیں کب ختم ہوں گی؟